پشاور ہائیکورٹ نے پولیس رپورٹ پر شہریوں کے شناختی کارڈ کو بلاک کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر آئندہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایات آئی تونادرا حکام کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔ قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے سے لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے عدالت عالیہ کے جسٹس اکرام اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست گزار جواد خانم کی رٹ کی سماعت کی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ انکا شناختی کارڈ گزشتہ کئی مہینوں سے بلاک ہے اور انہیں بینک ٹرانزیکشن اور دیگر امور میں سخت مشکلات کا سامنا ہے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نہ تو وہ افغانی ہیں اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی دہشت گردی کا الزام ہے مگر اس کے باجود نادرا حکام نے غیر قانونی طور پر اس کا شناختی کارڈ اس بنیاد پر بلاک کیا ہے کہ وہ اسلام آباد پولیس کو ایک کیس میں مطلوب ہے دوران سماعت نادرا کے نمائندہ نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے تمام کاروائی اسلام آباد پولیس کی شکایت پر کی گئی ہے اور مذکورہ درخواست گزار اس کو مطلوب ہے جس پرجسٹس اکرام اللہ نے کہا کہ آپ ہمیں قانون بتا دیں کہ کس قانون کے تحت پولیس کی رپورٹ پر آپ لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کرتے ہیں اگر اس طرح ہے تو وہ قانون کس شق کے تحت آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کریں شناختی کارڈ بلاک کرنے کا ایک ہی مسئلہ ہے اگر آئندہ اس قسم کے شکایات یا ہائیکورٹ میں رٹ آئی تو سخت ایکشن لیں گے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر پولیس کے کہنے پر آپ لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کرتے ہیں تو یہ تو لاکھوں لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک ہو جائیں گے پولیس کے کیس کا کیا پتہ کہ کب ثابت ہوتا ہے یا نہیں اگر کوئی آپ کو مطلوب ہے تو پولیس اس کو حراست میں کیوں نہیں لیتی اس کا شناختی کارڈ بلاک کرنے سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر نادرا حکام کو حکم دیا کہ درخواست گزار کے شناختی کارڈ کو فوری طور پر کھول دیا جائے اور آئندہ اس قسم کے شناختی کرڈ بلاک کرنے سے اجتناب کریں
کس قانون کے تحت پولیس کی رپورٹ پر نادرالوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کرتے ہیں، آئندہ اس قسم کے شکایات پر سخت ایکشن لیں گے،جسٹس اکرام اللہ
