پشاور() پاکستان میں ڈالر کی قدر میں 115روپے کے اضافے کی وجہ سے پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے بڑے شہروں کے تاجر بھی مہنگائی کی لپیٹ میں آگئے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں روزمرہ استعمال کی چیزوں کے علاوہ تیل کے نرخ بھی بڑھنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ تاجروں کے مطابق تاریخی اعتبار سے ڈالر کی قیمت میں پچھلے کئی برسوں کے دوران اب تک کا یہ سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیاہے جس کی وجہ سے بے یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کے نتیجے میں معاشی طور پر مزید مشکلات پیدا ہوں گی دوسری طرف صرافہ مارکیٹوں پر بھی مندی چھائی ہوئی ہے جہاں پر ڈالر کے مقابلے میں دوسری غیر ملکی کرنسیوں کے نرخوں میں بھی کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے یاد رہے کہ گزشتہ دنوں کے دوران ڈالر کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوتے ہوئے116روپے سے زائد پر فروخت ہوا تاہم ایک دن کے دوران اوتار چڑھائو کے باعث مالیاتی ادارے ڈالر کے نرخ ایک روپے کی کمی کے ساتھ115روپے تک لانے اور گزشتہ چند روزسے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم اس کے باوجود بھی ڈالر پہلے کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر ہے اس صورتحال کی وجہ سے صرافہ بازاروں اور سونا مارکیٹ میں بھی نرخوں میں رودبدل ہوئے ہیں اور چند روز کے دوران سونے کی فی تولا قیمت میں سات سو روپے ا ضافہ ہوا اس طرح باہر کے ممالک سے منگوایا جانیوالا سامان بھی کئی گنا مہنگا ہوا ہے یعنی جو چیز پہلے ایک سو8روپے پر دستیاب تھی ڈالر کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے وہ چیز اب عالمی مارکیٹ میں پاکستانی درآمد کنندگان کو116روپے پر دستیاب ہیں اس سلسلے میں پاکستان کے بڑے شہروں کے بعد پشاور بھی متاثر ہوا ہے تاجروں کے مرکزی رہنما اور سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شرافت علی مبارک کے مطابق ڈالر کے اتار چڑھاوء سے ابتدائی مدت میں پاکستانی مارکیٹ کو مشکلات کا سامنا ہوگا تاہم وسیع تناظر میں طویل المدتی فائدہ ہوگا کیونکہ تاجر اور صنعت کار درؤمدات کی بجائے بر آمدات پر توجہ دیں گے تاہم صرافہ مارکیٹ کے بعض تاجر شرافت علی مبارک کے موقف کے برعکس ڈالر کی اڑان کو مستقبل کیلئے انتہائی سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں جن کیلئے وہ دلیل دے رہے ہیں کہ ڈالر کے نرخ بڑھنے اور گھٹنے کی وجہ مستحکم اور غیر مستحکم معیشت کارفرما ہوتی ہے سٹیٹ بینک کے پاس جتنے ذخائر ہیں پاکستان نے اس سے کہیں زیادہ قرضہ لیا ہے جس سے آئندہ ہفتوں کے دوران ڈالر کے نرخ120روپے تک جانے کا قوی امکان ہیں مقامی تاجروں کے مطابق ڈالر کی قیمتیں بڑھنے کیو جہ سے مقامی سطح کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا امکان نہیں لیکن تیل کی قیمتیں بڑھنے کے بعد مقامی سطح کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی جس کا سارا اثر عام لوگوں پر منتقل ہوگا۔