فیاض ظفر
گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ محمود خان نے ملاکنڈ ڈویژن میں تعینات اسپیشل پولیس فورس کے ہزاروں اہلکاروں کو مستقل کرنے اور ریگولر پولیس میں ضم کرنے کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے متعلقہ ہزاروں پولیس اہلکاروں اور ان کے گھروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
قارئین، صوبائی حکومت کی جانب سے ملاکنڈ ڈویژن کے 6 اضلاع میں تعینات اسپیشل پولیس فورس اہلکاروں کو ریگولر پولیس میں شامل کرنے کے اعلان کے بعد اب ان اضلاع میں 5638 اہلکار ریگولر پولیس میں شامل ہو جائیں گے۔ اسپیشل پولیس فورس کے ان اہلکاروں کو شورش کے دوران بھرتی کیا گیا تھا، جن میں سوات میں 2200، شانگلہ750، بونیر778، دیر اپر 605، دیر لوئر 1005 اور چترال کے 300 اہلکار شامل ہیں۔ ان اہلکاروں کو عارضی بنیادوں پر فکسڈ سیلری دس ہزار روپے کے عوض بھرتی کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اے این پی کی حکومت نے ان کی تنخواہ میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ کیا، جس کے بعد ان اہلکاروں کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہوگئی، مگر ان کو پنشن اور دیگر مراعات حاصل نہیں تھیں۔ ہر سال ان کے کنڑیکٹ میں ایک سال کا اضافہ کیا جاتا تھا۔ وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے ان ہزاروں اہلکاروں کو ریگولر کرنے کے اعلان کے بعد ڈویژن بھر میں تعینات مذکورہ اہلکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ان کے سر سے ملازمت سے نکالنے کی لٹکتی تلوار بھی ہٹ گئی۔
قارئین، ملاکنڈ ڈویژن میں تعینات 5638 اسپیشل پولیس اہلکاروں میں سے دورانِ ڈیوٹی 36 اہلکار شہید ہوئے تھے۔ اسپیشل پولیس فورس کے اہلکاروں نے دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی اور شہید ہوئے۔ ان میں 13 اہلکار سوات، 6 شانگلہ، 4 بونیر، 5 دیر اپر اور 8 اہلکار دیر لوئر میں ڈیوٹی دیتے وقت دہشت گردی کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کیا۔
اسپیشل پولیس فورس کے اہلکاروں نے بہادری کے ساتھ ریگولر پولیس کے ساتھ ڈیوٹی کی اور کئی دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کو گرفتار کیا۔ اسپیشل پولیس فورس کے اہلکاروں کو ان کے شناختی کارڈ والے پتے کے پولیس تھانہ میں تعینات کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے وہ تھانہ کی حدود میں لوگوں کو جانتے تھے۔ غیر مقامی لوگوں کو فوری پہچان کر ان کی شناخت میں مدد دیتے تھے۔ مقامی تھانہ میں تعینات ہونے کی وجہ سے وہ جرائم پیشہ افراد کو بھی جانتے تھے اور جرم واقع ہونے کی صورت میں وہ ملزمان تک باآسانی پہنچ بھی جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ملاکنڈ ڈویژن میں تعینات اسپیشل پولیس فورس کی تربیت پاک فوج کے اہلکاروں نے کی تھی، جس کی وجہ سے انہیں ریگولر پولیس سے زیادہ ماہر مانا جاتا ہے۔ ریگولر پولیس کی تربیت پولیس ٹریننگ سکول میں کی جاتی ہے، جن کی تربیت پولیس اہلکار کرتے ہیں۔ اسپیشل پولیس فورس کو بغیر تربیت کے بھرتی کیا گیا تھا جس کی وجہ سے بعد میں پاک فوج کے ٹرینرز نے ان اہلکاروں کی تربیت کی۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد جو خصوصیات پاک فوجی کے کسی سپاہی میں ہوتی ہیں، وہ ان اہلکاروں میں بھی پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ اہلکار فوجیوں کی طرح ڈیوٹی دیتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ مینگورہ بنچ نے بھی اسپیشل پولیس اہلکاروں کو ریگولر کرنے کا حکم دیا تھا۔ دراصل سوات کے اسپیشل پولیس فورس کے اہلکاروں نے ریگولر ہونے کے لیے رٹ دائر کی تھی، جس پر ڈویژن بنچ نے ان اہلکاروں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے صوبائی حکومت کو حکم دیا تھا کہ ان کو ریگولر پولیس میں شامل کیا جائے۔ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف فنا نس ڈیپارٹمنٹ نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی جہاں اب یہ کیس زیرِ سماعت ہے۔
قارئین، میرا ماننا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن کے ہزاروں اسپیشل پولیس فورس کے اہلکاروں کو ریگولر کرنے میں کئی افراد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ جن کا تعلق بھی سوات سے ہے، ان کی بھی خواہش تھی کہ یہ اہلکار ریگولر ہو جائیں۔ ڈی آئی جی ملاکنڈ ڈویژن محمد سعید وزیر نے بھی ان اہلکاروں کو ریگولر کرنے کے لیے کوشش کی اور آئی جی سے مسلسل خط و کتابت کی۔ سوات سے اے این پی کے ایم پی اے وقار احمد خان نے بھی ان اہلکاروں کے لیے اسمبلی میں آواز اٹھائی تھی۔ سب سے بڑھ کر میڈیا کے نمائندوں نے ان اہلکاروں کو ریگولر کرنے کے لیے مختلف ادوار میں رپورٹنگ کی۔
قارئین، یہ اہلکار احساسِ محرومی کا بھی شکار تھے جس کی وجہ سے بعض اہلکاروں نے خودکشی بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ریگولر پولیس کی طرح چوبیس گھنٹوں میں بارہ گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں، لیکن ریگولر اہلکاروں کی تنخواہ ان سے ڈبل ہے۔ وہ پنشن سمیت تمام مراعات لے رہے ہیں، جب کہ ہم عارضی ملازمت میں یہی ڈیوٹی پندرہ ہزار روپے فیکسڈ تنخواہ کے عوض کرتے ہیں۔ ہر سال ملازمت ختم ہونے کی تلوار ہمارے سر پر الگ سے لٹکتی ہے۔ بدیں وجہ یہ احساس محرومی کا شکار تھے اور ذہنی مریض بن کر رہ گئے تھے۔
ایک ظلم یہ تھا کہ ان کو ملاکنڈ ڈویژن میں مختلف برے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کو دس ہزار روپے تنخواہ ملنے کے وقت ”لسو والا پولیس“ یعنی دس والی پولیس کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ چائینہ سامان سستا ہونے کی وجہ سے ان کو ”چائینہ پولیس“ کے نام سے بھی پکارا اور یاد کیا جاتا تھا۔ کچھ علاقوں کے لوگ اسپیشل پولیس اہلکاروں کو ”کسٹم چور پولیس“ کے نام سے پکارتے تھے۔ مذکورہ ناموں کی وجہ سے بھی یہ اہلکار تنگ تھے۔ اب وزیر اعلیٰ کے ان اہلکاروں کے مستقل کرنے یا ریگولر پولیس میں ضم کرنے کا اعلان تو کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک ان اہلکاروں کے مستقل ہونے یا ریگولر پولیس میں ضم ہونے کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ ان اہلکاروں کی ریگولر پولیس کی طرح تنخواہ، ان کا بعد از ملازمت پنشن، جی پی فنڈاور دیگر فنڈز کے بارے میں فنانس ڈیپارٹمنٹ اعداد و شمار جمع کرکے ان کا پورا حساب کتاب لگائے گا۔ نیز ان اہلکاروں کا خزانے پر کتنا مالی بوجھ پڑے گا جس کے بعد ان کی مستقلی یا ریگولر پولیس میں تعیناتی کی جائے گی۔
اب معلوم نہیں کہ مذکورہ کارروائی کب پوری ہوگی، اور کب ان کو ریگولر پولیس میں ضم کیا جائے گا؟ اس حوالہ سے اب ان اہلکاروں اور ان کے خاندان والوں کو بے چینی سے انتظار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے حکومت تمام کاغذی کارروائی مکمل کرتی، مستقلی کے اعلان کے ساتھ اسی دن نوٹیفکیشن بھی جاری کرتی، تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوتی!
اسپیشل پولیس فورس کی مستقلی…… مگر کب؟
