تصدیق اقبال بابو
’’د وخت زہر‘‘ محمد جمیل کاچوخیل کا شعری مجموعہ ہے، جن کا تعلق الہ ڈنڈڈھیرئ سے ہے۔ سچ پوچھئے تو مجھے کتاب کے نام میں بڑی کرختگی، کڑواہٹ اور مایوسی نظر آئی۔ اور مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ مجھے مایوسی، کڑواہٹ اور کرختگی پسند نہیں۔ میں شاعر سے اُمید، حوصلے اور رجائیت کی توقع رکھتا ہوں۔ شاعر تو اِک قسم کی ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود ہی مایوسیاں، نااُمیدیاں اور بے اطمینانیاں پھیلانا شروع کر دے، تو پھر پیچھے قوم کا کیا بنے گا؟ شاعر تو معاشرے کا نباض ہوتا ہے، یا شاعر کو قوم کی آنکھیں تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ شاعر اپنے ارد گرد سے متاثر ہوتا ہے۔ مانا کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ اُسے خوشیاں کم اور دُکھ زیادہ ملتے ہیں۔ عدم مساوات، ظلم و بربریت کا بازار بھی گرم ہے۔ ہر خطے میں انسان کسی نہ کسی طرح مجبور اور لاچار ہے اور وہ چارونا چار وقت کا زہر پی رہا ہے۔ پھر اُسی دکھ کو مایوسی میں بیان کرنے کی بجائے اُمید رکھنا بہتر ہے۔ جمیل صاحب کے اسی نام ’’د وخت زہر‘‘ کو ساحر لدھیانوی نے ذرا منفرد اور نرم انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ اپنی کتاب کا نام ’’تلخیاں‘‘ رکھ دیا ہے۔ لیکن ہمارے کاچو خیل صاحب ہیں کہ اپنی سات عدد کتابوں کے نام ہی مایوس کن رکھ دیے، ملاحظہ ہوں: ’’نوحۂ بے نام‘‘، ’’جلتا سرا سلگتی روح‘‘، ’’میرا برزخ‘‘، ’’ژوندی مڑی‘‘، ’’سپین مخونہ او تور زڑونہ‘‘ (یہ کتب میری نظر سے نہیں گزریں)۔ 
’’د وخت زہر‘‘ میں نا اُمیدی، مایوسی اور قنوطیت نہیں بلکہ محبت اور رومان کے زمرے ہیں۔ ہاں، البتہ کہیں کہیں مزاحمت، شدت اور تلخ نوائی کے موضوعات بھی سامنے آجاتے ہیں، لیکن بہ حیثیتِ مجموعی محبت کی پرچھائیاں ہی سارے کلام میں چھائی نظر آتی ہیں۔ لکھتے ہیں: 
مل چی می دَ چا خکلی یادونہ شی
ہجر کے دَ وصل راحتونہ شی
جمیلؔ جز وقتی نہیں کُل وقتی لکھاری ہیں۔ اردو ادبیات میں ماسٹر کیا ہے۔ ساری زندگی ادب پڑھا اور ادب ہی کا ابلاغ کیا۔ یہی ابلاغ کبھی نظم، تو کبھی نثر، کبھی اردو تو کبھی پشتو پیرائیہ میں منصہ شہود پہ جلوہ گر ہوتا رہا۔ ’’د وخت زہر‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو مجھے محبی فضل حمید صاحب نے تحفتاً دی اور کچھ لکھنے کا بھی کہا (فضل حمید گو کہ آل پاکستان لیبر یونین کے صدر ہیں، لیکن علم و ادب سے بھی بڑا واسطہ رکھتے ہیں)۔ 352 صفحات کی اس ضخیم کتاب کے ٹائٹل کی تصویر بھی کتاب کے نام سے ملتی جلتی ہے۔ یہ علامتی تصویر بتاتی ہے کہ ہماری دوشیزہ بھی جیسے تیسے وقت کا زہر پی رہی ہے۔ 
رسم و رواجونہ داسے ژرندہ دہ 
دَل پکے د دوؤ مئینو زڑونہ شی 
محمد سرور خٹک، فضل علیم علیم، محمد اقبال اقبالؔ ، ڈاکٹر شیر زمان سیمابؔ ، اور فضل عظیم عظیمؔ نے کتاب پہ اپنے اپنے مقدمے لکھ کر صاحب کتاب کی فکری، فنی اور شخصی جہتوں پہ روشنی ڈالی ہے۔ 
یوں تو صاحبِ کتاب نے زندگی کے ہر پہلو کو موضوعِ سخن بنایا ہے، جس میں رومان بھی ہے ارمان بھی، فراق بھی ہے وصال بھی، شدت بھی ہے اور جدت بھی، مزاحمت بھی ہے اور استقامت بھی لیکن ڈاکٹر سیماب نے اُن کی شاعری کے حقیقی اور مجازی پہلوؤں سے پردے سرکائے ہیں اور اس پہ مزید کام کرنے کے اشارے بھی کیے ہیں۔ 
د مجاز د پردے لاندی حقیقت دے 
کہ خبرہ د صنم، کہ د مئین دہ 
شنید ہے کہ جمیل صاحب اک درویش صفت انسان ہیں۔ جبھی تو محمد اقبال اقبالؔ نے لکھا ہے کہ ’’وہ امیر باپ کا ایک غریب بیٹا رہا۔ یعنی اپنی عادتوں اور کردار میں غریب رہا۔ یہی عاجزی اور انکساری آج بھی اُس میں موجود ہے‘‘۔ 
کتاب کی ابتدا ہی میں تعلی کے اشارے کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
دغہ د زڑہ آواز می خپل دے 
نے کہ ہغہ دے ساز می خپل دے 
خیالات بہ ڈیر وی مستعار خو 
د شاعرئ انداز می خپل دے 
فرازؔ نے کہا تھا کہ
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو فیض ؔ نے کہا تھا کہ 
اب بھی دلکش ہے تراحسن مگر کیا کیجئے
اور آگے لکھتے ہیں کہ 
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اسی طرح جمیل صاحب کو بھی اپنی لیلیٰ اور لیلائے وطن کے حسن کی یاد ستاتی ہے۔ وہ ذات اور کائنات کے دکھ کو جز سے کل کی طرف بڑھاتے ہیں۔ 
جبھی تو جل بھن کر کہتے ہیں کہ 
د وینو ڈک پہ خپل لیموباندے غزل اولیکم 
کہ دے پہ سترگو غزالو باندے غزل اولیکم 
د زڑہ چاودون قیصہ زہ خپلہ درتہ اووایمہ 
کہ ستا رنگینو افسانو باندے غزل اولیکم 
لوگی وہلی زیڑ مخونہ درتہ اوخایمہ 
کہ ستا د مینے پہ خوگو باندے غزل اولیکم 
ہر پختون شاعر کسی نے کسی حد تک قوم پرست ہوتا ہے۔ جمیل صاحب کی شاعری میں بھی بیشتر مقامات پر قوم پرستی کے ڈانڈے نظر آتے ہیں۔ پختونوں کی زبوں حالی، تباہی اور مسلط کردہ جنگوں کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ 
پہ پختونخوا د دے لمبو تپوس د چانہ اوکڑم 
د خپلو ماتو ککرو تپوس د چانہ اوکڑمہ 
نڑئ حیرانہ د پختون وہ حوصلے تہ چرتہ 
اوس د پست شوؤ حوصلو تپوس د چانہ اوکڑم 
مزید لکھتے ہیں: 
پختونخوا کے جوڑ قیامت دے چی رانہ شی 
اوور لوگی زمونگ قسمت دے چی رانہ شی 
د دی ملکہ اوس جمیلہؔ لری تختہ 
دا ہجرت دی غنیمت دے چی رانہ شی 
جمیلؔ نے ہرموضوع کو سخن وری کا جامہ پہنایا ہے۔ انہوں نے محبت کے نغموں سے لے کر ملکی حالات، سماجی نا انصافی اور طبقاتی کشمکش جیسے موضوعات کو بھی اپنے شعروں میں سمویا ہے۔ طویل بحروں میں وزن کا توازن بر قرار نہیں رہتا۔ اس لیے بعض ایک مقامات پر شتر گربگی، جھول، سقم اور سکتے جیسے عوارض بھی ملتے ہیں، لیکن بہ حیثیت مجموعی ’’د وخت زہر‘‘ پشتو ادبیات میں اک سنجیدہ اضافہ ہے۔ 
اس پہ ہم محمد جمیل جمیلؔ کاچوخیل کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔