ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیل
قارئین! آج کے عنوان سے ہی شائد آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں کس حوالے سے بات کر نا چاہتا ہوں۔ فرشتہ جو دس سالہ معصوم بچی تھی، پچھلے کئی دنوں سے اپنے گھر سے لاپتا تھی، کی لاش کھیتوں سے بر آمد ہوئی۔ اس معصوم بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ آج ہمیں پھر سے درندگی دیکھنے کو ملی۔
ذرائع کے مطابق ان کے والد شہزاد ٹاؤن تھانہ میں رپورٹ درج کرانے گئے، تو وہاں ہمارے قوم کے محافظوں نے انہیں کہا کہ آپ کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ بات یہاں محض رپورٹ نہ درج کرنے کی نہیں بلکہ الٹا ان کی معصوم بیٹی پر تہمت لگانے کی ہے۔ ایسے میں پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ فرشتہ کے ابو میں لفافہ دینے کی قوت نہیں تھی۔ ورنہ جہاں چھوٹے چھوٹے ایشوز پر گھنٹوں تبصرے ہو تے ہیں، وہاں فرشتہ کے حوالے سے محض خبر نشر کرنے سے کیا نقصان ہو جاتا۔
ٍ اگر ایسا طوفان ان کے گھروں پر آجائے، تو میڈیا کے ذریعے کیا کیا نہیں ہو۔ افسوس اور معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو ”بکاؤ میڈیا“ کہنے والے حق بجانب ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے آنکھ بند کر کے سوچیں کہ اگر خدانخواستہ آپ فرشتہ کے والدین ہوں۔ ایک پھول جس کی رکھوالی آپ نے دس سال تک کی ہو۔ اس پھول کو اچانک کوئی مسل ڈالے۔ آپ رپورٹ درج کرانے تھانے تشریف لے جائیں، جہاں آپ کے خون کو گالی دی جائے، تو آپ کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟ مگر یہ بات آپ کوکبھی بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ کیوں کہ آپ کے ساتھ حقیقت میں ایسا نہیں ہو اہے۔اس کرب کا حال فرشہ کے والدین سے معلوم کیجیے۔ ڈالر کی اڑان اور سیاسی جماعتوں کی افطار پارٹیوں پر گرما گرم بحث کرنے والے اگر فرشتہ کے دل سوز واقعہ کی طرف رجوع کریں، اور اس واقعہ کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائیں، تو شاید فرشتہ کے والدین کو انصاف ملے۔
قارئین، یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ بحیثیت انسان اور مسلمان ہمارے لیے دنیا کے تمام بچے یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کا تصور نہیں۔ فرشتہ اور زینب کے علاوہ اور بہت سارے بچے، بچیاں جو جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہیں، ہمدردی کے لائق ہیں۔ ہمیں اس بارے میں اپنی سیا ست کو چمکانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمیں اس موقع پر ایک ہو کر حکومتِ وقت سے انصاف کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم سیاسی پارٹیوں اور سیاسی حکمرانوں کے خلاف بولیں۔ بجائے اس کے کہ ہم پشتون اور پنجابی کا رونا روئیں، ہمیں اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ فرشتہ کے والدین کو انصاف دلانا چاہیے۔
حال ہی میں یمن میں ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے کو عدالت نے پندرہ منٹ کے قلیل وقت میں سرِ عام گولی مارکر لٹکانے کا حکم دیا ہے۔ ہمیں اپنے حکمرانوں اور اپنی عدالتوں سے ایسے انصاف کے لیے ایک ہونا چاہیے۔ اور اگر ہم اب بھی خواب ِ غفلت میں پڑے رہے، تو خدا نخواستہ کل کے لیے ہمیں بھی ایسے ہی حوادث کا سامنا کر نا پڑے گا۔ ہمارا ملک وہ ہے جس کے امن کی بین الاقوامی سطح پر مثالیں دی جاتی ہیں۔ اگر تبدیلی اس کا نام ہے، تو بھاڑ میں جائے ایسی تبدیلی۔ ہمیں ایسے حکمران نہیں چاہئیں جو ان جیسے دلسوز واقعات پر محض افسوس ظاہر کریں۔ ہمیں ایسا حاکم وقت چاہیے جو ہمیں حضرت عمرؓ، ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عثمانؓ کا دور یاد دلائے۔
ہمیں ایسی ریاستِ مدینہ کی قطعی ضرورت نہیں جس میں دس سالہ بچی کی عزت محفوظ نہ ہو۔ ہم مہنگائی کو تو برداشت کرلیں گے، لیکن اپنے جگر گوشوں کی ایسی حالت دیکھ کرکیسے جی سکتے ہیں؟ جہاں تک ان درندوں کا تعلق ہے، تو زینب کے قاتل کو سزا دینے سے یہ پھر بھی باز نہیں آئے۔ زینب کے والد کا حکومت سے یہ مطالبہ درست تھا کہ قاتل کو سرِعام پھانسی دی جائے۔ اگر زینب کے قاتل کو سرِعام پھانسی دی جاتی، تو شاید آج ہمیں فرشتہ کے اندوہناک قتل کا منظر نہ دیکھنا پڑتا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ فرشتہ کے ساتھ درندگی کرنے والے کو سرِ عام پھانسی دی جانی چاہیے۔ اور اگر خدا نخواستہ فرشتہ کے والدین کو انصاف نہیں ملا، تو آئے روز ہمیں کھیتوں میں اپنے بچوں اور بچیوں کی جنسی تشدد زدہ لاشیں ملتی رہا کریں گی۔ نتیجہ کیا ہوگا؟ وہ صاف ظاہر ہے۔ ”انقلاب!“ محض انقلاب ہی نہیں، خونی انقلاب۔ اب تو دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز ہے بھی یا نہیں، یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے!