ہمایوں مسعود ہمارے ایک اچھے، سنجیدہ اور مخلص دوست ہیں۔ اپنے مخصوص عادات و اطوار کے حوالے سے وہ ہمہ یاراں محفل میں مقبول و معروف ہیں اور ہر وقت عزت و احترام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پشتو زبان میں چھے عدد افسانوں پر مشتمل اُن کی ایک کتاب ’’رشتے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔’’رشتے‘‘ پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف ایک پیشہ ور لکھاری اور ماہر افسانہ نگار ہے جب کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ موصوف کی یہ پہلی تصنیف ہے۔
ہمایوں مسعود ایک تعلیم یافتہ اور باذوق انسان ہیں، سادگی اور ملنساری کے پتلے ہیں۔ پشتو، اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے کی ایک وجہ تو سنگوٹہ پبلک سکول میں ابتدائی تعلیم کا حصول ہے جبکہ دوسری وجہ ملازمت کے سلسلے میں ستائیس عدد یورپی ممالک بہ شمول امریکہ کی سیاحت ہے۔ سعودی عرب میں آخری ملازمت کرکے تقریباً تیئس سال کے بعد اپنے آبائی وطن سوات واپس لوٹ آئے ہیں۔ اس لیے موصوف کا تجربہ اور مشاہدہ بہت وسیع ہے جب کہ افسانہ کے موضوع کے انتخاب کے لیے مشاہدہ کا گہرا ہونا ضروری ہے۔ کسی افسانہ نگار کا مشاہدہ جتنا گہرا ہوگا، اتنے اس کے پاس موضوعات زیادہ ہوں گے۔
اس حوالہ سے عظمت ہمالکھتے ہیں: ’’ادب زندگی اور زندگی سے متعلقات کی عکاسی کرتا ہے اور افسانہ ان حقائق کو پیش کرنے کی ایک کامیاب صنف ہے۔ افسانہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں، کرداروں، حالات اور واقعات کی متحرک تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ ہمایوں مسعود کے افسانے وہ آئینہ ہیں جس میں زندگی کے تلخ حقائق صاف نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے صرف اپنے افسانوں کے لیے مناسب اور موزوں موضوعات کا انتخاب ہی نہیں کیا بلکہ وہ اپنے موضوعات سے واقفیت بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کا ہر افسانہ فنی لحاظ ایک اچھا نمونہ ہے۔ انہوں نے کہانی کے تمام اجزا فطری انداز میں ایک دوسرے سے پیوست کرکے تحریر کیے ہیں۔ اس طرح کثرت میں وحدت کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ صرف ایک کردار کو نہیں بلکہ ساتھ پورے سماج اور سماجی ماحول کو آگے لے جاتے ہیں۔ بعض اوقات قاری خود کو افسانے کا ایک کردار سمجھنے لگتا ہے۔
قارئین، افسانے کے لیے موضوع کا انتخاب کرنا ایک مشکل کام ہے، لیکن موضوع کو صحیح طریقے سے پیش کرنا ہی اصل فن ہے اور یہی افسانہ لکھنے میں سب سے سخت مرحلہ ہے۔ میرے خیال میں ہمایوں مسعود کے افسانے موضوع کے انتخاب کے حوالے سے اور پھر موضوع کو تفصیل سے پھیلانے، موڑنے اور ختم کرنے کے مرحلہ وار تسلسل سے اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہیں۔ خاص کر ’’غنچہ‘‘، ’’ترھہ گر‘‘ اور ’’رشتے‘‘ افسانے زمینی حقائق کے آئینہ دار ہیں۔ یہ واقعات عام زندگی سے اٹھائے گئے ہیں۔ کیوں کہ اہم بات یہ ہے کہ ہر وہ موضوع جو زندگی سے قریب ہو افسانے کا موضوع ہوتا ہے اور ایسے افسانے عام قاری کے ذہن پر براہِ راست اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ اگر ’’غنچہ‘‘ افسانہ جاگیردارانہ سماج کے زور اور ظلم کا عکاس ہے، تو ’’ترھہ گر‘‘ ایک ایسے سادہ، محنت کش، بے گناہ غریب انسان کی کہانی ہے جو اس گھناؤنے الزام اور نام کو اپنے خون سے بھی نہ دھو سکا۔ دہشت اور دہشت گردی کے نام پر جو شور شرابا اور ’’ضربِ عضب‘‘ سے آسمان جو سر پر اٹھایا گیا ہے، وہ اصل میں ہے کیا؟ ’’ترھہ گر‘‘ ایک نچوڑ ہے، ایک حقیقت ہے، ایک آغاز بھی ہے اور انجام بھی۔ ’’رشتے‘‘ جدید سرمایہ دارانہ اور صنعتی دور کے تعلقات کا ایک حقیقی نمائندہ افسانہ ہے۔ بقول کارل مارکس کے ’’تمام رشتے تقدس کھودیں گے۔ ایک رشتہ صرف ایک رشتہ یعنی سرمائے کا رشتہ باقی رہ جائے گا۔ ہر چیز اور ہر تعلق اور رشتے کی قیمت مقرر ہوگی۔ بولی لگے گی۔ تمام رشتوں کو سرمائے اور پیسوں کے معیار پر تولا اور پرکھا جائے گا۔‘‘ اگر ’’رشتے‘‘ اور ترھہ گر کو غور سے پڑھا جائے، تو آخر میں دوسرے تاثرات کے ساتھ رشتوں میں کھٹور پن اور پرایا پن کے تاثرات بھی موجود ہیں، جو آج کل زندہ حقائق ہیں۔ خود غرضی، لالچ اور حرص نے اچھے بھلے رشتوں کا خون سفید کیا ہے۔ ’’رشتے‘‘ میں بھائی بہن کے مثالی رشتے کا ذکر ہے۔
کہانی قدیم زمانے کی جب کہ افسانہ جدید دور کی تخلیق اور تحقیق ہے۔ اس طرح کہانی جاگیردارانہ اور افسانہ صنعتی دور کی عکاس ہے۔ کہانی، افسانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور جب کہانی کو فنی خوبیوں کا جامہ پہنا دیا جائے، تو یہ پلاٹ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ ہمایوں مسعود کے تمام افسانے کہانیوں سے بھرپور ہیں۔ ہمایوں مسعود نے ان کہانیوں کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ پشتو کے پرانے خوبصورت الفاظ کا استعمال نہایت بر محل اور بر موقع کیا گیا ہے۔ زمان و مکان کا بیانیہ دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ افسانے اگر چہ طویل ہیں، لیکن ان میں تجسس اور دلچسپی اتنی زیادہ ہے کہ طوالت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہر افسانے میں ایک مقصد اور پیغام پوشیدہ ہے۔ ہر افسانے کے آخر میں جو تشنگی کا احساس ہوتا ہے، وہ دراصل ادھورا پن نہیں ہے بلکہ قاری کو افسانے میں شریک کیا جاتا ہے۔ دراصل ایک اچھا افسانہ نگار وہ ہوتا ہے جس کا افسانہ آخر میں قاری کو بھی کچھ سوچنے پر مجبور کرے۔ اور کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن قاری کا دل بھی تیز دھڑکنے پر مجبور ہوجائے۔
ہمایوں مسعود کے افسانوں نے ہمارے دلوں کو گرمادیا۔ دھڑکنوں کو تیز کیا اور خوشی ہوئی کہ ہمایوں مسعود کے اندر ایک کرشن چندر، منشی پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، قلندر مومند، اجمل خٹک اور مہدی علی شاہ انگڑائیاں لے رہا ہے۔ کتاب کا پہلا افسانہ ’’پور ٹیبل فریج‘‘ اور آخری افسانہ ’’لکی مین‘‘ خیالی موضوعات ہیں۔ پہلے افسانے میں اگر چہ محبت و عشق کی ایک خیالی معراج کا تصوردیا گیا ہے لیکن آس پاس کے حقیقی ماحول میں اُس خیال کو پنپنے دیا گیا ہے۔ وہ محبت معروضی حقائق سے الگ نہیں ہے بلکہ اپنی محبت کا اسیر ہیرو ہر وقت زندگی کے حقائق کا سامنا کرتا رہتا ہے اوران حقائق کو طشت از بام کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتا، لیکن اس افسانے کے اختتام نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ اس طرح آخری افسانے ’’لکی مین‘‘ میں ایک صاف اور واضح پیغام دیا گیا ہے کہ انسانوں کی اس بھیڑ میں ہم کتنے اکیلے ہیں۔ سرمایہ دارانہ سرپٹ دوڑ نے ہم سے اپنے پرائے چھین لیے ہیں۔ ہم اپنے محلات اور تاج محلوں میں تنہائیوں کے زہریلے لمحوں میں گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں اور کسی بھی وقت ہمارا انجام ’’حاضر جان‘‘ جیسا ہوسکتا ہے۔
168صفحات پر مشتمل اس خوبصورت کتاب میں چھے عدد افسانے ہیں، جن میں اچھے افسانے کا انتخاب میرے لیے مشکل ہے۔ اس خوبصورت کتاب کا انتساب دو خوبصورت اور علمی ناموں محترم فضل ربی راہیؔ صاحب اور محترم شاہین بونیری کے نام ہے۔ یہ دونوں حضرات کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اس کتاب پر سمیع الدین ارمانؔ اور ڈاکٹر ہمدرد یوسف زئ نے تعارفی دیباچے لکھے ہیں۔ ڈاکٹر ہمدرد یوسف زئ خود بھی اچھے افسانہ نگار ہیں۔ ایک مثبت اور ترقی پسند سوچ کے مالک ہیں۔ ان دو حضرات کی پُرمغز تحریروں نے کتاب کی علمی قدر و قیمت کو بڑھادیا ہے۔ ضیاء الدین یوسف زئ نے فلیپ پر کتاب اور مصنف کے بارے میں مختصر تعارف لکھ کر دراصل دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔
کتاب 300روپے کی مناسب قیمت پر ’’شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز‘‘ جی ٹی روڈ مینگورہ سوات سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ میں اس خوبصورت کتاب کے شائع ہونے پر ہمایوں مسعود کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں اور ساتھ اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب مجھے تحفتاً عنایت کی۔ میری دعا ہے کہ اُن کا زورِ قلم اور زیادہ ہو اور قلم کی سیاہی کبھی خشک نہ ہو، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔