ایک زمانہ تھا کہ سوات کا نام آتے ہی دل میں یہ خواہش شدت سے ابھرتی تھی کہ اگر وسائل ہوں تو کم از کم ایک بار سوات ضرور جانا چاہیے۔ یہ وہی سوات ہے جہاں شدت پسندی کے دوران کوئی وہاں چلنے کی بات بھی کرتے تو سو سو خدشات ذہن میں ابھرتے تھے ۔مگر اب اللہ کا شکر ہے سب کچھ آپریشن کے بعد ٹھیک ہوگیا ہے
تعلیمی اداروں پر حملے، عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک، موسیقی تک کے بارے میں حیران کن رویہ، طالبان اور پھر فوجی کارروائیاں، لوگوں کی اپنے ہی ملک میں ہجرت پر مجبوری اور سکول جانے والی طالبات تک پر حملوں نے اُس علاقے کا تصور ہی تبدیل کر دیا تھا جسے کبھی جنت کی مثال کہا جاتا تھا۔اب شکر ہے امن و امان آچکا ہے اور حالات معمول کیمابق ٹھیک چل رہے ہیں
اسی سوات کے بارے میں ڈاکٹر سلطان روم کی کتاب آئی ہے جو پہلے انگریزی میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور اب اردو میں شائع ہوئی ہے۔
اس کتاب میں سلطان روم ہمیں ، شاہی ریاست رہنے والی سوات کی تاریخ، جغرافیائی پس منظر اور اُس کے اداروں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سوات نے ثقافتی اور سماجی میدانوں میں کب کب اور کیا کیا ترقی کی اور کیسے کی۔ وادی میں زندگی کی کثیر الجہتی نوعیت کیا رہی ۔
یہ علاقہ جس کا تصور ناقابلِ یقین حد تک قصے کہانیوں جیسا رہا ہے اور جغرافیائی اعتبار ایک عرصے تک پورے برِ صغیر کے لیے بڑی اہمیت کی حامل رہا ہے اور پاکستان کے لیے تو یقینی طور پر اب بھی ہے۔ سلطان روم بتاتے ہیں کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں، جب ریاست کو قدرے خودمختاری کا موقع ملا تو اس وادی اور اس کے ملحقہ علاقوں نے تعلیم، زراعت، مواصلات، اور سیاحت کے شعبوں میں کیا ترقی کی ۔
اور پھر ریاست میں اقتدار کی کشاکش کی تاریخ جو کسی طور پر فکشن سے کم نہیں۔
پہلے ہی باب میں جو تعارف کے عنوان سے قائم کیا گیا وہ لکھتے ہیں: مشہورِ زمانہ وادیِ سوات جسے اپنی خوب صورتی کی وجہ سے ایشیا کا سوئٹزر لینڈ کہاجاتا ہے، جغرافیائی لحاظ سے اُس علاقے کا ایک کلیدی اور اہم حصّہ ہے جہاں برّاعظم ایشیا کے تین اہم خطے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور چین ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ تاریخی طورپر اس کی امتیازی حیثیت ہمیشہ سے برقرارر ہی ہے۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اوقات میں یہ کئی خوفناک افواج کی مہم جوئی کا بھی نشانہ بنتارہا ہے۔
کتاب کے دوسرے ابواب میں ریاست کا قیام، استحکام، توسیع، اُمورِ خارجہ، انتظام و انصرام، سماجی اور ثقافتی پہلو، پاکستان میں ادغام اور بعد از ادغام کے دور شامل ہیں۔
کتاب کو بارہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ہر باب میں ذیلی باب ہیں ۔ جن میں ایسی تفصیلات ہیں جنھیں شاید اس سے پہلے اس طرح نہیں دیکھا گیا۔
سلطانِ روم کا کہنا ہے: میں جانتا ہوں کہ ریاست کے حامی اور مخالفین میں سے بعض لوگ اس تحقیق سے خوش نہیں ہوں گےلیکن میں نے کسی خاص فرد، گروہ یا نقطۂ نظر کی ترجمانی یا حمایت کی جگہ خود کو محقق کے لیے مقرر اصولوں اور ضوابط کا سختی سے پابند رکھا ہے۔ ’اس کتاب کا مقصد کسی کو ہیرو بنا کر اور کسی کو پرلے درجے کا بدمعاش بنا کر پیش کرنا ہر گز نہیں‘۔
تحقیق کے دوران ان پر جو بات کھلی ہے وہ برصغیر کی تاریخ پر ہی دنیا کے بہت سے ملکوں میں حکومتوں اور حکمرانوں کی تواریخ پر صادق آتی ہے کہ جو کتابیں ان حکومتوں اور حکمرانوں پر تحقیق کی بنیاد بننے کے لیے بچ جاتی ہیں ان میں زیادہ تر وہی ہوتی ہیں جن کی سرپرستی وہی کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ ہوتی ہیں۔ سلطان روم نے ایسی ہی بعض کتابوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’وہ دستاویزی مواد جو برطانوی دورِ حکومت کی فائلوں اور رپورٹوں میں موجود ہے، اس میں معروضیت کی کمی ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ادغام کے بعد ریاست سوات کا سیاسی ریکارڈ، یعنی سرکاری خط و کتابت اور ریاستی مشاورتی کونسل کی کارروائیوں کی روداد کی فائلوں کی حفاظت اس طرح نہیں کی جا سکی جیسے ہونی چاہیے تھی۔ اس لیے یا تو وہ ضائع ہو گیا یا اُسے مفاد پرستوں نے چرا لیا‘۔
ان سب باتوں سے ظاہر ہے کہ انھیں کیسی کیسی دستاویزات سے گزرنا پڑا ہے اور انھوں کس حد تک احتیاط سے کام لیا ہے ۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ سلطان روم کی تحقیق غالبًا اب تک سوات کے بارے میں مستند ترین دستاویزات میں سے ایک ہو گی۔
ڈاکٹر سلطان روم نے جامعہ کراچی سے تاریخ میں ایم اے کیا اور یونی ورسٹی آف پشاور سے ڈاکٹریٹ کی۔ ان کی دوسری کتابوں میں ’لینڈ اینڈ فارسٹ گورننس: ٹرانزیشن فرام ٹرائبل سسٹم ٹو سوات سٹیٹ ٹو پاکستان‘ اور پشتو کی ضرب المثل کتاب ’متلونہ‘ شامل ہیں۔
ڈاکٹر سلطان روم اب گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہان زیب کالج کے شعبہٴ تاریخ کے سربراہ ہیں۔ وہ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کے تا حیات اور دوسرے کئی اہم تحقیقی اداروں کے رکن ہیں۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ احمد فواد نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے تحقیق کے لیے متعیّن حدود و قیود کا پوری طرح سے خیال رکھا ہے۔ لیکن عام قاری کی سہولت کے لیے ہر باب کے بعد دیے گئے صرف اُن اندراجات کو رکھا ہے جن میں کوئی نئی بات یا کسی بات کی مزید صراحت کی گئی ہو۔ اصل کتا ب کے آخر میں ماخذ کی جو تفصیل ہے ، اُسے البتہ اس اردو ترجمہ میں بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
احمد فواد کی مادری زبان پشتو ہے۔ انھیں اردو، عربی اور فارسی پر دسترس ہے۔ انھوں نے جامعہ کراچی سے تاریخ میں آنرز اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اب سوات میں انگریزی کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اردو اور پشتو کےاہم شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے۔ پشتو میں ان کا ایک اور اردو میں تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
کراچی میں زمانۂ طالب علمی کے دوران وہ صحافت سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔