محبوب علی، فیصل آباد

یوں تو پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی ایک بہترین تخلیق ہے۔ خوبصورت قدرتی مناظر بلند و بالاپہاڑ آسمانوں کو چھوتی ہوئی خوبصورت چوٹیاں جنگل دریا میدان حتیٰ کے تمام چرند پرند بھی اللہ کی بڑائی بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان قدرتی مناظر کو دیکھنے ان سے محبت رکھنے اور سیر و سیاحت والے لوگوں کی اگر بات کی جائے تو اٹلی کے شہر وینس میں پیدا ہونے والے مارکوپولو اور مراکش کی تاریخ میں اپنا نام لکھوانے والے مسلم سکالر ابن بطوطہ کا نام لینا ضروری امر سمجھا جائے گا جو اپنے دور حیات میں ان قدرتی مناظر کو دیکھنے اور نئے سے نئے علاقے دریافت کرنے میں کئی سال تک سفر کرتے رہے۔

دنیا بھر میں سیاحتی مقامات کو نہ صرف سیاحتی بلکہ معاشی اور روزگار کی آنکھ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔بوطن عزیز کی بات کی جائے تو شمالی علاقہ جات کو خصوصی طور پر سیاحتی مقام کہا جاتا ہے۔ جن میں ناران کاغان، سکردو، گگلت بلتستان، وادی ہنزہ، آزاد کشمیر، چلاس، چترال، کلاش، دیوسائی، سمیت بیس لاکھ اکتیس ہزار کی آبادی کو سموئے اور پانچ ہزار کلو میٹر سے زائد کے رقبے پر پھیلا اورِ ِِ منی سوئٹزر لینڈ سمجھا جانے والا سوات بھی سیاحوں کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔ جہاں کی بل کھاتی وادیاں اور خوبصورت پہاڑ سیاحوں کو ایک نازک حسینہ کی طرح اپنی طرف کھنچتی ہیں۔

پاکستان کے مختلف صوبوں بالخصوص پنجاب اور سندھ سے جانے والے سیاح سوات جیسی خوبصورت وادی سے خوب دل لبھاتے ہیں۔ خوبصورت وادیوں کی طرح یہاں کے رہنے والے لوگ بھی خوبصورت اخلاق اور خوب مہمان نواز جانے جاتے ہیں۔ یہاں کچھ دوستوں کا ذکر کرتا چلوں جن کے بغیر میری تحریر نامکمل رہے گی کالام کی طرف میرا پہلا سفر چند دوستوں کے ساتھ شروع ہوا 12 گھنٹے کی طویل مسافت سے جیسے ہی کالام پہنچے ٹھنڈی ہواوں نے رُخساروں کو چھوتے ہوئے استقبال کیا۔ رات سے شروع کیا گیا سفر اگلے دن 1 بجے ایک ایسے ہوٹل میں اختتام پزیر ہوا جو ہوٹل کم اور گھر زیادہ محسوس ہوا دریا کے کنارے پر بنائے گئے اس خوبصورت ہوٹل کا نام Hotel Holiday Resort ہے جہاں قدرتی منظر سیاحوں کا دل موہ لیتا ہے۔

کالام کی خوبصورتی کی طرح اس ہوٹل کے لوگ بھی اخلاق سے بھرپور اور دوستانہ مزاج رکھتے ہیں۔ جن کے ذکر کے بغیر میری تحریر ناممکمل رہے گی اس ہوٹل کے دوست اور چہرے پہ مسکراہٹ رکھنے والے بڑے بھائی آفرین خان جو اس ہوٹل کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ آنے والے سیاحوں کے ساتھ مہمانوں کی طرح کم اور گھر کے افراد کی طرح زیادہ پیش آتے ہیں۔ آنے والا ہر سیاح کو بہترین سروس اور بڑے بھائی کی طرح سیاحوں کی رہنمائی کرنے والے ریاض بھائی کو اس ہوٹل کا آل راونڈر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کالام کے اندر اور پورے سوات میں کہیں بھی ان کی سروس روشنی کی تیز سپیڈ کی طرح ملتی ہے۔

ایاز خان میرا ہم عمر ہی نہیں بلکہ ایک اچھا دوست بھی ہے۔  پیار محبت اور اخلاق سے بھرپور یہ ہوٹل نہیں ایک خاندانی گھر ہے۔ کالام میں موجود ایک اور دوست کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کے ساتھ دوستی جیسے انمول رشتے کا آغاز فیس بک سے ہوا جو اُس وقت روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم تھے اور آج کل کالام میں ابراہیم کوہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔غلط فہمی کے باعث پہلی ملاقات نہ ہوسکی لیکن دوسری بار بھی مجبوریاں آڑے آگئیں خیر ان تمام دوستوں کی عزت اور پیار دل میں ہے۔

یوں تو سوات اور کالام میں بے شمار جگہیں دیکھنے والی ہیں۔ لیکن آنے والا ہر سیاح مہوڈنڈ جھیل سے با خوابی واقف ہوتا ہے۔ اور یہاں کا نظارہ کیے بغیر واپس آنے والے سیاح محض سفر ہی کرتے ہیں۔ یہ جھیل کالام سے 2 گھنٹے کی مسافت پر 35 کلو میٹر جنوب کی طرف واقع ہے۔ جس کا لہراتا راستہ اپنے اردگرد خوبصورت گاؤں اور ایسے نظارے پیش کرتا ہے کہ ہر ایک کلو میٹر پر گاڑی روک کر عکس بندی کرنے کو دل للچاتا ہے۔ اس جھیل کا راستہ کالام سے کچھ فاصلے پر کالام جنگل یا اُشو فاریسٹ کے درمیان سے ہو کر گُزرتا ہے۔ گھنے جنگل میں پرندوں کی سُریلی اور گاڑی کے انجن کی آواز گھنے جنگل کی خاموشی کو توڑتے ہوئے اُشو ویلی تک جا پہنچتی ہے۔ جھیل کا یہ راستہ گھنے جنگل، اشو ویلی، گلشئیر، مٹلتان، بلوغہ گاؤں، شاہی گراونڈ، جیسے خوبصورت نظاروں پر مشتمل ہے۔ جو مہاوڈنڈ جھیل تک جا پہنچتا ہے۔ جن کا تذکرہ الگ سے کیاجائے گا سطح زمین سے 9400 فٹ بلندی، 2 کلو میٹر طویل اور چاروں اطراف سے پتھریلے پہاڑوں کی بانہوں میں کھیلتی یہ جھیل کالام کی پہچان اور شان بھی سمجھی جاتی ہے۔ جہاں سیاح کیمپنگ کرتے ہیں۔ اور قدرتی نظاروں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اگر حکومتی سطح پر سیاحت کو فروغ دینے کے لئے معقول بجٹ کے ساتھ اقدامات کیے جائیں تو یہ نہ صرف مقامی لوگوں کے لئے روزگار بلکہ ملکی معیشت میں بھی اہم حصہ ہوگا