فضل مولا زاہدؔ
اب آئے روز کہیں جانا نہیں پڑتا، خوشبو لگا کے۔ شان و شانتی سے اٹھتے ہیں، ناز و نخروں کے ساتھ کھاتے پیتے اور من مرضی سے گھومتے پھرتے ہیں۔ دن بھر، بھرپور فاختے واختے اُڑاتے ہیں۔ ماہِ جون کی اِس جنونی گرمی میں اپنے پِنڈ کی سرسبز کھیت کھلیانوں اور خوشگوارموسم کے مزے لیتے ہیں۔ شام کی شگفتگی چھائے، تو چہل قدمی کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ نمازِ عشا سے پہلے،یہ منھ اور ”مونگ کی دال“ میں پکے بیگمی چاول اور دودھ وغیرہ کے ایک تھال میں ملغوبہ بنا کر کھاتے کھاتے خوب سیر ہوتے ہیں۔ ازاں بعد اپنی ذاتی کیوبیکل بیڈ روم میں خراٹوں سے اَٹی ایسی نیندکی آغوش میں سر رکھتے ہیں کہ اہلِ مکاں کیا، اہلِ محلہ بھی پناہ مانگیں۔ ایسے پُرلطف و پُرسکون ”چاپیرچل“ کو چھوڑ کر، بدحال وطن میں کہیں اور جانا، گھومنا پھرنا اور زندگی کے پروٹوکولز میں خود کو خواہ مخواہ ا لجھانا”کفرانِ ماحول“ نہیں،تو اور کیا ہے؟ خوشبو لگا کے!
واہ جی، غازی نادان بھی ہماری طرح زندگی کی رنگینیوں میں گُم ہوا،جیسے……!
د ہ مینی د ہ درسونو مدرسو کی ژوند دے، خہ دے
واللہ چی نن صبا خہ پہ مزو کی ژوند دے، خہ دے
جانانہ ستا دیدن کہ پکی کیگی او کہ نہ خو
جانانہ ستا د کلی پہ کوسو کی ژوند دے، خہ دے
لیکن، بعض اوقات کہیں نہ کہیں جانا اور منھ دکھائی کروانا بھی معاشرتی مجبوری بن جاتا ہے۔ 21 جون 2019ء کو جمعۃ المبارک کی شام آٹھ بجے کبل گاف کلب میں ہونے والی محکمہئ پولیس کی ایک تقریب میں شرکت کا پروانا ملتا ہے، تو ایک دم عید کی دوسری رات گیارہ بجے سوات کی سڑکوں کی حالتِ زار ذہن میں گھومنے لگتی ہے۔ اپنے افضل شاہ باچا کی معیت میں ڈاکٹر نعیم خان کے فارم ہاؤس سے نکل کرمنگلور پُل پہنچتے ہیں اورمین روڈ پرشہرکی طرف ”ایل ٹرن“لیتے ہیں۔ ہاں، ایل ٹرن! یو ٹرن نہیں۔ تو ٹریفک کا ایک ازدحام رینگتا دیکھتے ہیں۔ دن بھر کے تھکے ماندے پولیس جوانوں کو کئی رضا کاروں سمیت اس ازدحام کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں بھاگتے دوڑتے، ہاتھ چلاتے اور سیٹیاں بجاتے دیکھتے ہیں۔ ایک طرف ایک دُنیا اپنے پیاروں کے ساتھ عید کی خوشیوں، موسم کی رنگینیوں اور موسیقی کی بھرپور دُھنوں سے محظوظ و مسرور ہو رہی ہے، تو دوسری طرف چلتے انجنوں اور ہارنوں کے شور شرابے اور سائیلنسروں کی دُھویں سے اَٹی فضا میں پولیس والے ٹریفک کنٹرول کرنے میں سرگرداں ہیں، جو اپنی خواہشات اور جذبات کو بھوک اور پیاس کو اور کمر شکن تھکن کودبائے ایک روبوٹ کی طرح اپنے فرائض کی بجا آوری میں مصروف ہیں۔ ہم بار بار ٹریفک قوانین کو توڑ مروڑ کر اور اپنی حدود و قیودسے تجاوز کرکے گاڑی کو جیسے تیسے اُس بھیڑ بھاڑسے نکال لیتے ہیں، لیکن یہ پولیس والے غصہ تو دور کی بات، تلخ بات بھی نہیں کرتے۔ وہ تسلسل کے ساتھ بہت ہی شائستگی اور خوش اخلاقی سے ہماری غلطی کی نشان دہی بھی کرتے ہیں، ٹریفک کو بھی چل چلاؤ کیفیت میں رکھتے ہیں اور ہم کہیں نہ کہیں رستہ پا کر مینگورہ کی جانب بڑھتے بھی رہتے ہیں۔ عید کی چھٹیوں میں ڈیڑھ دولاکھ گاڑیوں کی بے ہنگم ٹریفک کے سونامی کو 100 کلومیٹر کے احاطہ میں محدود تنگ سی سڑک پر چلنے دینا اور ہوٹلوں کے علاوہ نیلے آسمان تلے،کھلی چھتوں کے اوپر، گاڑیوں اورٹینٹوں کے اندر، فٹ پاتھوں کے درمیان، دریا کی گود، درختوں کے جھنڈ اور گلی کوچوں کے وسط میں لاکھوں سیاحوں کو امن سے وقت گزارنے دینا، یقینا بڑے مشکل اور چیلنجنگ مراحل تھے، جس سے وہ بہ طریقِ احسن نمٹتے ہیں۔ سو پولیس فورس کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کی خاطر ہم اپنا پُر سکون وقت اور مستا نی شام قربان کرتے ہیں اور تقریب میں شرکت کے لیے 3 بجے سہ پہر بڑے سج دھج کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں۔ مکان باغ میں واقع سروش اکیڈمی کے احمد شاہ صاحب کی معیت میں تحصیل کبل کے گاؤں گل جبہ پہنچتے ہیں۔ اپنے سلطان حسین صاحب کے ڈیرے پر ”شامِ امیراں“ مناتے ہیں۔ وہاں موجود اپنے زیتون کے ہرے بھرے پودوں کے ساتھ حسبِ معمول اہلاً و سہلاً مرحبا کرتے ہیں۔ ٹہنیوں سے لٹکتے پھلوں کے ساتھ ڈھیروں پیار کرتے ہیں اور پروگرام کے مطابق ٹھیک وقت پرہم تینوں گالف کلب میں لگے پنڈال میں قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے کہ کوئی سو، سواسو زعما کے اِس اجتماع میں نہ صرف سوات بلکہ ملاکنڈ، بونیر، دیر، شانگلہ اور یہاں تک کہ باجوڑ جیسے دور دراز کے علاقوں کے اسمبلی ممبرز، جرگہ مشران، کئی سیاسی پارٹیوں کے علاقائی لیڈرز، ریٹائرڈ پولیس ملازمین، بلدیاتی نمائندے اور سماجی کارکن دیکھتے ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختون خوا ڈاکٹر محمد نعیم خان اس محفل کے مہمانِ خصوصی ہیں، جو اگرچہ کافی تاخیر سے پہنچتے ہیں، لیکن پورا مجمع بڑے سکون کے ساتھ اُن کی آمد کا منتظر رہتا ہے۔ خدا خدا کرکے کوئی دس بجے پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔ شرکا کی کافی تعداد مہمانِ خصوصی کو تحفے تحائف اور شیلڈ پیش کرتی ہے اور تقاریر میں پولیس فورس کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کواپنی پولیس پر کتنا مان ہے اور اُن کی کتنی عزت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ بد قماش اہلکار جان لیں کہ حسنِ اخلاق و کردار کا صلہ یوں بھی ملتا ہے۔ تقاریر کی مختصر سی نشست میں کہا گیا کہ دہشت گردی کی لہر میں سب سے پہلے جو قربانی دی گئی وہ ایک پولیس نوجوان کی شہادت تھی، اور سب سے زیادہ جو مصیبتیں جھیلی ہیں وہ فورسز کے سپاہیوں اور عوام نے جھیلی ہیں، جن کی قربانیوں کے طفیل ہمیں زندگی واپس ملی ہے۔
تقریب میں امن و امان کی صورتِ حال پر بات ہوتی ہے۔ مسائل و مشکلات بیان کیے جاتے ہیں۔ سپیشل پولیس فورس کو ریگولر کرنا چاہیے اور مؤثر امن کے قیام کے لیے پولیس فورس کو درکار وسائل کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ آئی جی پی صاحب دل کھول کر اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ہیں، وہ اُن اوقات کے چشم دید گواہ ہیں، جن میں بد امنی پنپی اور پھیلی۔ اُس دورکو وہ سوات کا تاریک دور قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں نے بڑے دُکھ اور مصیبتیں جھیلی ہیں اور امن کی خاطر بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ ہمیں ماضی کی کڑواہٹوں کو بھولنے کی بجائے سبق سیکھنے کے لیے اسے یاد رکھنا چاہیے۔ ماضی کو تو نہیں بدلا جاسکتا، جو ہوا سو ہوا، لیکن حال اورمستقبل تو اپنی مُٹھی میں ہیں۔ اُنہوں نے تاکید کی کہ ہم سب کوچوکس وبیدار رہنا چاہیے کہ اُس تاریک دور کا پھر کبھی اِعادہ نہ ہو۔ پولیس فورس کو اُن کی نصیحت ہے کہ عوام کی عزت و آبرو کے تحفظ کو ہر حال میں مقدم رکھاجائے، اُن کو پیار و محبت دی جائے اور ظالموں کے پنجے سے اُن کو بچا یا جائے۔ سیاحت کے شعبے کی اہمیت اور اس حوالے سے بننے والے ترقیاتی منصوبوں کے بارے بھی تفصیل سے باتیں ہوتی ہیں۔ لوکل پولیس کو ٹریننگ دینے کے لیے مستقبل قریب میں تھائی لینڈ سے پولیس آفسر آئیں گے۔ سپیشل پولیس فورس کو جلدی ریگولر ائزکیا جائے گا۔
قارئین، آئی جی پی صاحب اگر سنیں، تو ہم بولیں کہ امن و امان اور سیاحت کے حوالے سے سب سے اہم بات جو وہاں کہنے سے رہ گئی، وہ یہ ہے کہ اولین کام کے طور پر پورے ملاکنڈ ڈویژن میں بدامنی کے دور کی وہ تمام نشانیاں مٹانے کے لیے اقدمات کیے جائیں، جو اَب بھی نظر آ رہی ہیں، اور جنہیں دیکھ کر حسن و خوبصورتی کا وہ جادوئی خیا ل فوری طور پرکافور ہو جا تا ہے، جسے ذہن میں رکھے جوق در جوق سیاح ملاکنڈ ڈویژن کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ بعض جگہوں میں سڑک کے بیچوں بیچ رکاوٹیں،عارضی دیواریں، بدنمامورچے، تھانوں اور شارعِ عام کی حدود میں پڑے مٹی اور ریت وغیرہ کے بھرے ڈرمزاور کنستر اور قطعی بلا ضرورت چیک پوسٹیں، جہاں ہیں اور جیسی ہیں، بد امنی کی اُن سب نشانات کو مکمل طور پر مٹایا جائے، تاکہ اُس تاریک دور کی یادیں خواہ مخواہ ہی ذہن میں تازہ نہ ہوں اور بھرے ہوئے زخموں پر نمک پاشی، بلکہ زہر پاشی نہ ہو۔ اس کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس بنانے پر سوچا جا سکتا ہے، جو اِن جگہوں اور نشانیوں کی نشان دہی کرے اور حالات اور ضرورت کے مطابق اِس بارے فیصلہ کریں۔
دوسری بات، ہماری نظر میں پولیس کے ہاتھوں میں بندوقوں کی کھلے عام نمائش اور ریل پیل کی کوئی خاص ضرورت اب محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ بندوقوں کے سائے میں زندگی یوں رواں دواں ہوگی، تو پائیدار امن کا خواب چکناچور ہی رہے گا۔ مظفر آباد میں پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ خوبصورت یونیفارم میں ملبوس پولیس کے ہاتھوں میں بندوق نہیں، چھوٹی سی چھڑی ہوتی ہے، کسی کے پاس ریوالورہو تو ہو، لیکن وہ بھی باپردہ۔ ایک حد ہوتی ہے، یہ ڈھکوسلا جنگ ہم جیت چکے۔اب ایک بیدار اور جی دار زندگی کی شروعات ہونی چاہیے، جو بندوق کی بد نما شکل اور کسی ڈر اور خوف کے بغیر ہو، تو تب ہمیں یقین ہو کہ یہاں پائیدار امن آ گیا ہے۔
شکریہ آئی جی پی صاحب! سوات آنے کا۔ جیسے آپ نے فرمایا کہ بدامنی کے اُس پورے دور کے چشم دید گواہ ہیں، آپ۔ تو ”بائی دی وے“ اِس سوال کا جواب آپ پر قرض رہے گا کہ یہ دِل توڑتاکون ہے؟ یہاں تو سب ٹوٹے پڑے ہیں۔ یہ انسان کا کلیجا نوچنے والے گدھ کون ہیں؟ یہاں تو ہمارے کلیجے خون آلود پڑے ہیں؟ خدا زمینی عزرائیلوں کی مزید اذیتوں اور ظلم و ستم سے ہم سب کو اپنے امان میں رکھے، آمین۔ جاتے جاتے میثم علی آغا کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کہاں کا عشق کہاں کی محبتیں، مُرشد
تمام عُمر ہی جھیلی ہیں وحشتیں، مُرشد
کوئی تو ہوتا جو چُنتا وجود کے ریزے
تمام عمر رہی ہیں یہ حسرتیں،مُرشد
وہ کون لوگ تھے، گمنامیوں سے نالاں تھے
ہمیں تو مار گئی ہیں یہ شہرتیں، مُرشد
کوئی وظیفہ کوئی وِرد کوئی اِسم پڑھیں
کہ ختم ہونے لگی ہیں اَذیّتیں،مُرشد