افتخار افتی
اچھے لوگ نہیں مرتے، وہ بدن کی قید سے تو آزاد ہوجاتے ہیں، لیکن اُن کی یادیں دلوں میں ہمیشہ گھر کیے رہتی ہیں۔
6 جنوری کی صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ”فیس بک“ پر ایک دلخراش خبر نظر سے گزری۔ خبر کچھ یوں تھی: ”ہم سب کا بہت ہی پیارا دوست تصدیق اقبال بابو اب ہم میں نہیں رہا۔“ خبر پڑھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ دماغ ماؤف سا ہوگیا۔ آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ یہ تو پتا تھا کہ بابو حادثے میں زخمی ہوکر اسپتال میں ایک اذیت سے گزر رہا ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اس طرح اچانک بِنا پوچھے ہم سے بچھڑ جائے گا۔ بقولِ شاعر:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے، ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
مَیں ماضی میں چلا گیا۔ بابو کی ایک ایک بات، ایک ایک ادا میری نگاہوں کے سامنے پردہ پر چلنے والی فلم کی طرح دکھائی دینے لگی۔ سوچنے لگا، موت کتنی ظالم اور بے رحم ہے۔ یہ کسی کو نہیں بخشتی۔ بابو کا معصوم سا پیارا چہرہ، اُس کی قاتلانہ مسکراہٹ اور گہری چمک دار اور روشن آنکھیں، میری نگاہوں کے سامنے بار بار آرہی تھیں۔
تصدیق اقبال بابو کے ساتھ میرا تعلق ”روزنامہ آزادی“ کی وساطت سے بن گیا تھا۔ وہ تو تھا ہی پیدائشی اُردو دان اور کالم نگار، جب کہ ہم نے اس پُرخار وادی میں نیا نیا قدم رکھا تھا۔ مَیں اُس کی تحریریں پڑھتا، تو مجھے رشک سا آنے لگتا۔ وہ کالم کیا لکھتا، موتی بکھیرتا۔ الفاظ کے چناؤ میں اُسے ملکہ حاصل تھا۔ اس کا جداگانہ اُسلوب، بیان کی رنگینی، الفاظ کا چناؤ اسے سب سے منفرد بناتا۔ وہ الفاظ کا جادوگر تھا۔ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتا اُسے امر کردیتا۔ مجھے یاد ہے، جب وہ مجھ سے پہلی بار ملا، تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہمارا تعلق بہت پرانا ہو۔ وہ جس محبت اور خلوص سے مجھ سے ملا، مجھے اپنا گرویدہ بنا گیا۔ پھر وقفے وقفے سے ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مَیں جب بھی اس کا کالم پڑھتا، تو اسے کال یا ایس ایم ایس کے ذریعے داد ضرور دیتا۔ اُس کا دل موہ لینے والا یہ فقرہ میں کبھی بھلا نہ پاؤں گا کہ جب میں اُسے کہتا کہ بابو! آپ نے کمال کا کالم لکھا ہے، تو جواب میں وہ عموماً فرماتا کہ ”افتی! یہ آپ کی محبت ہے۔“ اتنا پیار کرنے والا اور ہر ایک کے ساتھ گھل مل کر رہنے والا انسان بھلا کیسے اس طرح ہم سے جدا ہوسکتا ہے؟
ہم سب نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ اُس جیسا لکھاری صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوسکتا، لیکن اس بات کے بھی سب معترف ہیں اور رہیں گے کہ اتنے عظیم قلم کار اور روشن دماغ رکھنے والے انسان نے بھی اپنے فن پر غرور نہیں کیا، بلکہ وہ ہمیشہ یہی کہتا کہ ”مَیں تو اب بھی ایک سٹوڈنٹ ہوں اور سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا ہوں“۔ اس کی یہی منکسر المزاجی، سادہ طبیعت اور درویش صفت خوبیاں ہر کسی کے دلوں میں گھر کرلیتیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا حلقہئ احباب وسیع تھا۔ وہ ہر محفل کی جان ہوا کرتا تھا۔
عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جب کسی کو معمولی سا بھی اختیار مل جائے، کسی فن میں معمولی سی شہرت بھی مل جائے، یا تھوڑی سی امارت ہاتھ آجائے، تو پھر وہ وقت کا ایک فرعون بن جاتا ہے، لیکن بابو ان تمام باتوں سے مبرا تھا۔ وہ انسانیت کا قدردان تھا۔ دنیا کی شان و شوکت، عہدے، امارت اور ظاہری چمک دمک اور دکھاوے کا وہ بالکل قائل نہ تھا۔ اس کی کامیابی کا راز بھی اسی میں تھا۔ وہ ہر دل عزیز انسان تھا بھی اس وجہ سے کہ انسانیت ہی اُس کا دھرم تھی۔ انسان کو انسان سمجھنا اور اُس کی عزت و تکریم کا بھرم رکھنا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں۔
بابو کو جب لحد میں اُتارا جارہا تھا، تو شام کا وقت تھا۔ وہ منظر اتنا دردناک تھا کہ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر چہرہ افسردہ تھا۔ دور سورج بھی سر مئی بادلوں میں اپنا چہرہ چھپارہا تھا۔ وہ بھی شاید مغموم ہی تھا۔
آہ، بابو! تم اس طرح اچانک یوں ہی ہم سے بچھڑ جاؤگے، یہ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ تمہیں جانے کی بہت جلدی تھی کیا؟ اس طرح بنا پوچھے اپنوں کو یوں اُداس اور بے قرار چھوڑا کرتے ہیں؟
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
بابو، ہمارے پاس آپ کو دینے کے لیے دعاؤں کے سوا اور کچھ بچا ہی نہیں۔ اللہ تعالا سے دعا ہے کہ آپ کو جنت میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
کل اُس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا، وہ بچھڑنے والا ہے
بابو سے میری آخری ملاقات تقریباً دو ماہ قبل ہوئی تھی۔ وہ اچانک بازار میں آکر ملے۔ جلدی میں تھے۔ حسبِ روایت بہت ہی پیار سے ملے۔ مَیں نے چائے کی پیشکش کی، لیکن اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا: ”آج ڈھیر سارے کام نمٹانے ہیں۔ آئندہ ملاقات میں ضرور آپ سے چائے پیوں گا۔“
مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی اور وہ اس طرح ہمیں چھوڑ کے دور چلا جائے گا۔
قارئین، مَیں یہ سطور ابھی لکھ ہی رہا تھا کہ سبحانی جوہر کی رحلت کی دردناک خبر بھی سننے کو ملی۔ بابو کی موت کی وجہ سے ہمارا دل پہلے ہی گھائل تھا، اوپر سے اس خبر نے ہمیں مزید دکھی کر دیا۔ برادرم سبحانی جوہر بھی ایک بہت ہی نفیس اور ہنس مکھ انسان تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہترین لکھاری بھی تھا۔ تھا تو وہ انگریزی کا استاد لیکن اس کی اُردو بڑے بڑے اردو دانوں کو ورطہئ حیرت میں ڈال دیتی۔
قارئین، کس کس کا رونا روئیں، اس طرح اچانک ان دو ہستیوں کے چلے جانے سے ہم واقعی بہت ادھورے ہوگئے ہیں۔ بابو چلے گئے، تو سبحانی بھی حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے ہولیے۔
جاتے جاتے اختر حسین جعفری کی اک شہرہ آفاق نظم دونوں مرحوم ہستیوں کے نام کرتا چلوں کہ
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں!
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
انتظارِ بہار بھی کرتے
دامنِ چاک سے اگر اپنے
کوئی پیمان پھول کا ہوتا
آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں
دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی
دہر میں کوئی نو بہار نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔