عصمت علی اخوند
قارئین، مینگورہ شہر کی تنگ سڑکوں اور ٹریفک کے بے انتہا بوجھ کے پیشِ نظر حکومت اور انتظامیہ نے ضروری سمجھا کہ یہ بوجھ کم کرنے کے لیے جنرل بس اسٹینڈ اور سبزی منڈی کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی اور بس اسٹینڈ اور سبزی منڈی کے لیے اراضی ڈھونڈنے کا عمل شرع کیا گیا۔ یوں جنرل بس اسٹینڈ کے لیے بائی پاس سڑک اور سبزی منڈی کے لیے بلوگرام میں اراضی دیکھی گئی اور اسے فائنل بھی کیا گیا۔ بعد میں اس پر کام بھی شروع کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں بس اسٹینڈ کو بائی پاس اور دوسرے مرحلے میں سبزی منڈی کو بلوگرام منتقل کردیا گیا۔ جنرل بس اسٹینڈ کو گاڑیاں بھی منتقل ہوگئیں اور یوں شہر پر کافی حد تک ٹریفک کا بوجھ بھی کم ہوگیا، لیکن بس اسٹینڈ کی منتقلی سے یک دم شہر کا رونق بھی ختم ہوگیا۔ خصوصاً جنرل بس اسٹینڈ کے آس پاس کے علاقے تو ویران ہو کر رہ گئے۔ دوسری طرف نئے بس اسٹینڈ کی وجہ سے لوگوں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس کی منتقلی کا پتا نہیں، وہ جب پرانے اسٹینڈ آتے ہیں، تبھی ان کو پتا چلتا ہے۔ لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بس اسٹینڈ کی منتقلی سے ٹریفک کے بوجھ میں کافی کمی آئی ہے۔
دوسری طرف سبزی منڈی بھی تیار ہوئی اور انتظامیہ نے جب آڑھتیوں کو وہاں منتقل کرنے کا حکم دے دیا، تو اس پر ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا۔بیشتر نے وہاں جانے سے صاف انکار کردیا۔ اس کے ساتھ پرانی سبزی منڈی انتظامیہ نے سیل کر دی اور وہاں کاروبار پر پابندی لگا دی۔ انتظامیہ کے اس اقدام پر آڑھتیوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا اور اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان آڑتھیوں نے اپنی منڈی کے لیے شہر کے قریب جگہ بھی ڈھونڈلی ہے۔ نیز انتظامیہ سے اجازت لینے کے لیے تگ و دو بھی شروع کیا ہے۔ انتظامیہ خود کو کمزور نہ کرنے کی غرض سے آڑھتیوں کو اجازت نہیں دے رہی تھی۔ البتہ سخت ترین احتجاج کے بعد مقامی ایم پی اے نے پرانی سبزی منڈی کے سیل توڑ کر آڑھتیوں کو کاروبار کی اجازت دے دی۔ واضح رہے کہ مذکورہ اجازت عارضی ہے۔
قارئین، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ 15 دنوں میں آڑھتیوں کے لیے متبادل جگہ کا تعین ہوگا۔ پھر ان کو وہاں منتقل کیا جائے گا، یعنی شہر کے قریب دو منڈیاں بن جائیں گی۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان آڑھتیوں کو نئی سبزی منڈی میں منتقل کیا جائے گا۔ اب جو بھی ہوگا، وہ تو وقت بتائے گا لیکن یہ ہے کہ سبزی منڈی کا معاملہ التوا کا شکار ہوچکا ہے۔بیشتر آڑھتی نئی سبزی منڈی واقع بلوگرام میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ سبزی اور فروٹ کی خرید و فروخت کا سلسلہ وہاں جاری ہے۔ مگر کسی نے یہ بات نوٹ نہیں کی ہوگی کہ اس سارے عمل کا اثر براہِ راست عوام پر پڑ رہا ہے۔شہری چہ میگوئیاں کر رہے ہیں کہ اگر سبزی منڈی کو منتقل نہیں کرنا تھا، تو وہاں سرمایہ کیوں لگایا گیا، وہاں کی منظوری کیوں دی گئی؟
اس تمام تر عمل کا اگر جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اب آڑھتی دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ کچھ نئی منڈی چلے گئے ہیں۔ کچھ جانے کو اب بھی تیار ہیں، جب کہ بعض وہاں جانے سے انکاری ہیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ تو انتظامیہ کو چاہیے کہ اس تنازعہ کو جلد از جلد ختم کرے اور شہر کی خوبصورتی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ سب سے اہم بات ”قانون کی رکھوالی کو یقینی بنایا ئے۔“