سلیمان ایس این
مکرمی! جیسا کہ ملک کے ہسپتالوں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ غفلت حکومتی اقدامات کی ہو یا ڈاکٹروں کی بھگتنا غریب عوام کوہی پڑتا ہے۔ملاکنڈ ڈویژن کےپسماندہ ضلعوں شانگلہ،بونیر،دیر،کوہستان میں قائم صحت کے مراکز،ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات ہونے کے باعث سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے بڑے ہسپتالوں میں دور دراز سے آئے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان مریضوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور بعض اوقات تو انہیں بغیر علاج ہی واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ہسپتال کی باہر ماں کی گود میں شیرخوار بچی کو اکسیجن لگوایا گیا تھا اور اس ماں کو پتہ بھی نہیں تھا کے اپنی بچے کو کہاں لے جائے۔ ایسے واقعات گورنمنٹ ہسپتالوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ جو آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ مسیحا حلف تو عوام کی خدمت کا لیتے ہیں لیکن آئے دن ہڑتال کے نام پر دُکھی عوام کو علاج کیسہولت سے محروم کر دیتے ہیں۔ سوات کے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ہی بیڈ پر کئی مریض موجود ہوتے ہیں یا کرایوں پر چارپائی لیکر مریض کو اس پر ڈال دیا جاتا ہے ، مریضوں کی شکایات سننے کے لئے میڈیا پر پابندی لگی ہوئی ہے صفائی کا تو کوئی پر سان حال نہیں،ایمر جنسی وارڈ تو کچرہ ڈبہ نظر آتا ہے اور پینے کے صاف پانی بھی ہسپتال بلڈنگ کے اندر میسر نہیں،۔ صفائی کے ناقص انتظامات پر ہسپتالوں کی انتظامیہ نے چپ سادھ لی ہے اس طرح مزید بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ ۔ شعبہ صحت صوبائی حکومت کی توجہ کا منتظر ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے ساتھ ہی نئے ہسپتالوں کی ضرورت ہے اور موجودہ گورنمنٹ ہسپتالوں کی حالتِ زار کو بہتر کرنا ضروری ہے۔
سوات ہسپتالوں کی حالت زار
