خلیل جبران سے کسی نے پوچھا کہ بے غیرت کسے کہتے ہیں؟ اس نے دور آسمان کی طرف دیکھا، پھر سوال کرنے والے کے منہ کی طرف دیکھا، پھر دریا میں اپنے پاؤں ڈالے، جب پاؤں خوب ٹھنڈے ہو گئے تو ارشاد فرمایا، بے غیرت وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے قتل کے جواز گھڑے، عدالتوں میں بیٹھے تو انصاف نہ کرے، اقتدار میں ہوتو نظام نہ بنا سکے ۔حلف اٹھائے لیکن ٹانگ اوروں کے معاملات میں اڑائے۔ صحافی ہو لیکن عوام کے بجائے حکمرانوں کا کاسہ لیس ہو، گلی کوچوں میں گندگی اور کچرا پھینکے، پبلک میں سگریٹ پیے، نسوار اور پان کی پیک جگہ جگہ تھوکتا پھرے ۔ اس کے پڑوسی اس سے تنگ ہوں ۔اس شخص نے کہا خدا کا واسطہ ہے بس کر دو، بس کردولیکن خلیل جبران خلیل خلاؤں میں گھورتا ہوا بولتا رہا ۔ 1947 کے بعد ایک ایسی قوم آنے والی ہے جو مذہب کے نام پر کٹ مرے گی لیکن اس کی کوئی گلی محلہ صاف نہیں ہوگا، ان کے ہاں بڑے بڑے مناظر ہوں گے لیکن ان کی مسجدوں کے واش روم دیکھ کر قے آئے گی۔ یہ بڑے ذہین و فطین ہو ں گے لیکن یہ مذہب کو نفرت اور تعصب کیلئے استعمال کریں گے یہ اپنی عبادت کیلئے سڑکیں بلاک کیا کریں گے ۔ ان کے تعلیمی ادارے اور اسپتال غلاظت کے ڈھیروں میں بدل چکے ہوں گے ۔یہ اپنے ملک کے بجائے کے ایران، قطر، سعودی عرب، یمن، مصر، بحرین، ترکی، انڈیا، امریکا پر بحث کرتے رہیں ۔ یہ رمضان میں رویت ہلال پر وقت ضائع کریں گے۔ یہ ہر اس عمل کے خلاف کھڑے ہو جائیں جس سے افراد قوم میں ڈھلتے ہوں ۔یہ خود کو لبرل، سیکولر اور مذہبی کہیں گے لیکن کسی ایک قدر پر پورے نہیں اتریں گے خلیل جبران خلیل نے ایک ٹھنڈی آہ بھری، اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہنے لگی ۔ چیخ کر بولاان کے ہاں بڑے بڑے اینکر ہوں گے لیکن وہ عوام کے مسائل کے بجائے پوری دنیا کے مسئلے چھیڑ کر اپنی حکومتوں کو ریسکیو کریں گے ۔ پس وہ اس دور کے بے غیرت ترین لوگ ہوں گے اور جو ان کی بے غیرتی میں شک کرے گا، وہ مرتبے میں ان سے بھی بڑا بے غیرت ہوگا ۔خلیل جبران خلیل نے یہ بھی کہا کہ وہ میری باتوں کو پڑھنے کے بعد اس بحث میں پڑ جائیں گے کہ یہ باتیں خلیل جبران نے کی ہیں یا نہیں، یہ ان کی بے غیرتی کی بلند ترین علامت ہو گی ۔ شکر ہے کہ خلیل جبران خلیل نے شئیر نہ کرنے والے کے بارے میں کچھ نہیں کہا
بے غیرت کسے کہتے ہیں؟
