اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی ( کی جانب سے جمعیت علما اسلام (ف) کے حکومت مخلاف لانگ مارچ میں شرکت سے انکار کے بعد دونوں جماعتوں میں تلخیاں پیدا ہوگئی جہاں دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر معاملے پر سیاست کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
جمعیت علما اسلام (ف) کے سیکریٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے لانگ مارچ پر پیپلز پارٹی کے موقف پر کھل کر تنقید کی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی نے دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے، ایک طرف وہ ہمارے لانگ مارچ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہیں تو وہیں دوسری جانب سے وہ ہمارے احتجاج کی اخلاقی و سیاسی حمایت بھی کر رہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جو جیل میں ہیں وہ باہر آنا چاہتے ہیں اور جو باہر ہیں وہ جیل نہیں جانا چاہتے ہیں’۔
پیپلز پارٹی کے جے یو آئی-ف کی قیادت پر حکومت مخالف مظاہرے میں ‘مذہب کارڈ’ کے استعمال کے الزامات پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری جماعت نے کبھی پی پی پی پر سندھ کارڈ استعمال کرنے پر تنقید نہیں کی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘مذہب کارڈ ایک بہانہ ہے پیپلز پارٹی کا کیونکہ چند اختیارات حاصل کرنا چاہتی ہے، اس قبل بھی پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم، صدر اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں دھوکا دیا ہے’۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب پیپلز پارٹی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہی تھی تو اس کے رہنما نے مولانا فضل الرحمٰن سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مہم کا آغاز کرنے کی درخواست کی تھی۔
جے یو آئی-ف کے رہنما کا کہنا تھا کہ احتجاج کے بارے میں اب بھی اپوزیشن جماعتوں سے رہبر کمیٹی کی سطح پر بات کی جاسکتی ہے جسے ملٹی پارٹی کانفرنس میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے قائم کیا تھا۔
19 ستمبر کو اسلام آباد میں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کے بعد ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ‘میں دھرنا کی سیاست نہیں کرنا چاہتا، میں بینظیر بھٹو شہید کی سیاست کرنا چاہتا ہوں، آپ کیوں مجھے مولوی بنانا چاہتے ہیں’۔