اختر حسین ابدالی
آج سے چند دن پہلے وفاقی وزیر برائے داخلہ اُمور بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”عوامی نیشنل پارٹی نے طالبان کی مخالفت کی، تو انہوں نے بلور کو مار دیا، میاں افتخار حسین کے بیٹے (میاں راشد حسین) کو مار دیا، ان کے کارکنان کو مار دیا، یہ طالبان کی جانب سے ایک ری ایکشن تھا، اور اب جو لوگ نون لیگ کے بیانیے کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کو اللہ خیر کرے۔“
موصوف کی وائرل شدہ ویڈیو پر پوری پشتون قوم اور بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین اور کارکنان کی طرف سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ صوبائی صدر اور ولی باغ کے سیاسی وارث ایمل ولی خان نے متنازعہ بیان پر اعجاز شاہ سے فوری طور پر مستعفی ہونے اور ریاست سے ایک غیر جانب دار تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ پہلے پہل حکومت یہ بات سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں تھی، لیکن ایمل ولی خان نے جب 10 دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اسلام آباد کی طرف ”سرخ پوش مارچ“ کا اعلان کیا، تو حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا۔ یوں اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سے ختم کرنے کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان نے وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک مذاکراتی ٹیم (جرگہ) تشکیل دی جس میں وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ، صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا اور ارباب شیر علی خان شامل تھے۔ جرگہ نے باچا خان مرکز پشاور میں اے این پی کے قائدین حاجی غلام احمد بلور، میاں افتخار حسین، ایمل ولی خان، سردار حسین بابک، ثمر ہارون بلور اور دیگر مرکزی و صوبائی قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے متنازعہ بیان پر وضاحت دینے کے ساتھ ساتھ پوری پختون قوم سے معافی بھی مانگ لی۔ جس کے بعد اے این پی نے وزیرِ داخلہ کی معافی اور معذرت کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ پختون روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ان لوگوں کا جرگہ (ننواتی) اور معذرت کو قبول کرتے ہیں۔
اس بیان کے بعد چند سوشل میڈیائی صحافیوں کے ساتھ ساتھ حادثاتی انقلابیوں اور کچھ سیاسی جماعتوں کے نابالغ کارکنوں نے اے این پی اور ایمل ولی خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان کو جن الفاظ سے نوازا، وہ ضبطِ تحریر میں لانے کے قابل نہیں۔
قارئین! ننواتے پشتون قوم کی ایک عظیم روایت ہونے کے ساتھ ساتھ پشتون ولی کا ایک اہم اور ضروری عنصر ہے۔ بقولِ پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے ”ننواتے“ (جرگہ) پشتون ولی کا اہم جز ہے۔ اگر کوئی پشتون ننواتے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے مسترد کرتا ہے، تو پشتون معاشرے میں اس شخص کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس موقع پر اے این پی کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ ننواتے کو قبول کرکے موصوف کو معاف کیا جاتا، جس طرح کیا گیا۔ دوسرا راستہ، پشتون ولی اور ننواتے سے منھ پھیر کر ”جرگہ“ کو ماننے سے انکار کیا جاتا۔ اب عوامی نیشنل پارٹی بحیثیتِ پشتون قوم کی نمائندہ جماعت اگر پشتون ولی سے انکار کرتی، تو کیا وہ اپنی قوم پرست بیانیے کو برقرار رکھ پاتی؟
قارئین، لہٰذا ہمیں اپنے سیاسی بغض اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بحیثیتِ پشتون قوم اپنی روایات کو زندہ رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ ثقافت اور روایات ہی وہ شے ہیں جن کی بنیاد پر قومیں اپنی ارتقائی منازل طے کرتی ہیں۔