ایڈوکیٹ نصیراللہ

تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (منھ در منھ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے۔ (104:01القرآن)
پارلیمنٹ اگر اتنا ہی بے توقیر ہے کہ پارلیمنٹرین صرف آئے اور اپنا نکتہئ نظر پارلیمنٹ میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر پیش کرے، اور قانون سازی کچھ بھی نہ ہو، تو اس سے میرے خیال میں بہتر ہے کہ پارلیمنٹ ہی کو ختم کرلیا جائے۔ کیوں کہ عوام کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پارلیمنٹ میں بات ہوتی ہے، اور نہ کوئی ڈھنگ کی قانون سازی۔ بس ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، بات بے بات تنقید کرنا رہ جائے، تو باضمیر شخص ایسی جگہ میں بیٹھنا بھی پسند نہ کرے۔ دوسری طرف حکومت دو قدم آگے جاتے ہوئے پارلیمنٹ کے وقار کو پاؤں تلے روندنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ کو ربڑ سٹامپ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک سال میں 17 آرڈیننس یعنی صدارتی فرمان لاگو کر چکی ہے۔ صاف اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کی اہمیت اور تقدس کیا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ آرڈیننس فیکٹری نہیں ہوتے۔ پارلیمانی کمیٹیوں میں زیرِ تجویز 136 بلز کو اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کے سیشن تک مقید کر دیا ہے، جس میں ایک کو بھی آگے نہیں آنے دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اپوزیشن میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
دوسری طرف آزادی مارچ کا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے۔ آزادی مارچ کے عمائدین اسلام آباد آنے کے لیے بے تاب ہیں۔ مارچ کے آرگنائزرز نے ڈنڈا بردار انصار الاسلام جمعیت علمائے اسلام کی 80 ہزار فوج کو بھی تیار کرلیا ہے، جس کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔ مدرسوں کے طلبہ کو استعمال کرنے کا معاملہ الگ ہے۔
ان حالات میں ملکی معیشت کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ عوام کو کس طرح بند گلی میں دھکیلا گیا۔ عوام روٹی کی خاطر روتے پیٹتے دہائیاں دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اندازہ ہے کہ عوام کی قوتِ خرید دم توڑ چکی ہے۔ اس لیے ملک میں ماڈل لنگر خانے کھول اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ایک طرف حالات یہ ہیں اور دوسری طرف معیشت ایک سروے کے مطابق مزید ابتری کی جانب گامزن ہے۔ کرپشن دو درجے مزید بڑھ گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے آخری موقع فراہم کرتے ہوئے ملک میں ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ روکنے جیسے27 نِکات کو یقینی بناکر ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ آخری موقع کے لیے فروری 2020کا مہینا دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ملک کو بلیک لسٹ کیا جائے گا۔
میرا خیال ہے کہ آزادی مارچ میں اپوزیشن کے سیاسی راہنماؤں اور ہم خیال اراکین کی گرفتاریوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ آزادی مارچ کے لیے اسلام آباد پولیس نے تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی خفیہ ڈیلنگ اور سپورٹ اب واضح تر ہو کر منظر پر آچکی ہے۔ پشتون تحفظ مومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی بھی ایک پیج پر ہیں۔ اس طرح تمام اپوزیشن پارٹیوں کا آزادی مارچ پر اکا ہوچکا ہے۔ اسی اثنا میں حکومت کو ٹف ٹائم ملنے کے امکانات زیادہ روشن ہو رہے ہیں۔ مارچ کے عمائدین نے حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن خفیہ ایجنڈا کو تکمیل تک پہنچانے کا پروگرام رکھتی ہے۔
بہرحال حکومت اپنے بچاؤ کے لئے مبینہ الزامات لگانے سے دریغ نہیں کر رہی۔ اس لحاظ سے حکومت کا نکتہئ نظر مضبوط نظر آرہا ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ آزادی مارچ والوں کا کوئی مطالبہ موجود نہیں، بس وہ کسی طرح حکومت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اگر کسی جگہ دھاندلی ہوئی ہے، تو وہ حلقے ہم کھلوانے کے لیے تیار ہیں۔ معیشت اور گرانی پر بات چیت کرتے ہیں، لیکن مخالف فریق استعفا اور حکومت ختم کرنے کے علاوہ کسی بات پر تیار نہیں۔
ہر کسی کو حق ہے کہ وہ کرپشن، اقربا پروری، رشوت ستانی، گرانی، بنیادی معیشت کی زبوں حالی، سیاسی مقدمہ بازیوں پر اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھے۔ قانون کے تابع جلسے کرے۔ مظاہرے کرے۔ میڈیا پر آکر اپنے مؤقف سے عوام کو آگاہ کرے۔ پارلیمنٹ میں آواز اٹھائے۔ واک آؤٹ کرے۔ حتی کہ جس بھی طریقے سے ممکن ہو حکومت کو غیر قانونی کام سے رکوائے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اس لحاظ سے جمہوریت کے اندر اور بلٹ باکس کے ذریعے ہی بہترین انتقام لیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ قانون کے تابع آزادیِ اظہار، آزادیِ حرکت، آزادیِ کاروبار، تحفظِ جان ومال ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے آئین و قانون میں طریقہئ کار موجود ہے، لیکن بعض حالات میں قانونی طریقہ نہیں آزمایا جاتا۔ کیوں کہ ایک پیچیدہ، قیمتی اور وقت طلب مراحل سے گزارا جاکر انصاف ملتا ہے۔
قارئین، بہرحال اول الذکر قانونی امر ہے، جس سے کسی شہری کو منع نہیں کیا جا سکتا۔ الا کہ یہ مملکت کی بقا اور سالمیت کو خطرہ لاحق نہ کرے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ آزادی مارچ ملک میں گرانی، بنائے گئے سیاسی مقدمات اور بیڈ گورننس اور مبینہ سلیکٹڈ حکومت کے خلاف کیا جا رہا ہے، لیکن مارچ کے عمائدین یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم حکومت کے خاتمے کے لیے نکلے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے دھرنا ہر پارٹی کا حق ہوتا ہے، لیکن حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے گرانا اور مذہب کارڈ کھیل کر حکومت گرانا سیاسی حکمت عملی، سیاست اور جمہوریت اور خود مذہب کی زریں روایات کے خلاف ہوتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اس کی وجہ سے ملک میں انارکی یعنی بے چینی پھیلے گی۔ معیشت پر اثر ہوگا۔ اداروں پر بوجھ پڑے گا۔ ایک نیا ٹرینڈ اور رسم چلے گی۔
دراصل حکومت گرانی اور معیشت سنبھالنے میں ناکام ہوچکک ہے، لیکن ہر حکومت کے پاس قانونی مینڈیٹ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ ابھی تو ڈیڑھ سال بھی نہیں ہوئے، اس لیے اگر حکومت کو وقت سے پہلے چلتا کیا جاتاہے، تو خرابیِ بسیار کی تمام ذمہ داری اپوزیشن کے سر آئے گی۔ کافر اور مسلمان کے فتوؤں کا دور مستقبل میں نظر آرہا ہے۔ اس کی فیضؔ نے کیا خوب منظر کشی کی ہے:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
قارئین، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جب کوئی تصور کرے کہ جب ملک میں انارکی پھیلے گی، امن برباد ہوگا، اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ اس سوال پر زیادہ دیر سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ میرا خیال ہے اور جس سے اختلافِ رائے رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ان مذکورہ اقدامات کی وجہ سے اس ملک میں غیر سیاسی عناصر کے لیے راہ ہموار کی جار ہی ہے، تو دوسری طرف صدارتی نظام بھی لایا جا سکتا ہے۔ تیسرے آپشن کے طور پر مارشل لائی نظام بھی لایا جا سکتا ہے۔ اس سے ایک طرف اگر جمہوری نظام کے لپٹنے کا خطرہ موجود ہے، تو دوسری طرف سیاسی عمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اثرات اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہر جگہ ”وہ کافر میں مسلمان، وہ مسلمان تو کافر اور یہ قادیانی، احمدی وہ لاہوری اور یہودی ایجنٹ“ کی گردان سے مذہبی منافرت سر اٹھا سکتی ہے۔ حکومت میں تبدیلی لاکر وزیر اعظم کو بدلنے کے اشارے موجود ہیں۔
اپوزیشن آج بھی تیسری قوت کو اشارے دے رہی ہے، اور تعاون کی طلبگار ہے۔ مولویت کے دھڑے بازی بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ کل کلاں اس میں نفرت کو مزید ہوا ملے گی۔ لانگ مارچ، آزادی مارچ، دھرنوں اور جلسوں کا سیزن پاکستان کے جمہوری نظام حکومت کو غیر مستحکم کرنے لیے سازش کرنے کے تانے بانے بنے جا چکے ہیں۔ البتہ میں سوچتا ہوں کہ پنجاب بچاؤ تحریک کی وجہ سے بزدار حکومت کی بلی دینی پڑسکتی ہے۔
خدارا، خرابی کو خرابی سے دور کرنا کون سی دانشمندی ہے۔ سرِ عام نفرت، بغض اور کینہ اور ایک دوسرے پر الزامات اور تہمتیں لگائی جا رہی ہیں۔ سیاست کو لازمی طور پر دھوکا، فریب اور دروغ گوئی بنایا گیا۔ مہذب دنیا میں مل بیٹھ کر معاملات سلجھائے جاتے ہیں۔ بات چیت ہوتی ہے اور کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے۔ خاکم بدہن، نتیجتاً ان سب عوامل سے مملکت اور عوام کی تباہی مقدر ہے۔