فضل ربی راہی
سکندرِ اعظم کے حملہ کے بعد 304 قبل مسیح میں جب اس کے مشہور جرنیل سیلوکس نے ہندوستان پر دوبارہ حملہ کیا تو اس نے دریائے سندھ کے اس پار مفتوحہ علاقے جن میں سوات، بونیر وغیرہ کے علاقے بھی شامل تھے، ہندوستان کے راجہ چندر گپتا کے حوالے کر دیئے۔ چندر گپتا نے ان علاقوں کے باشندوں کو پوری مذہبی آزادی دی تھی اور ان پر بے جا پابندیاں عائد کرنا پسند نہیں کیا تھا۔چندر گپت موریہ نے بدھ مت قبول کر لیا تھا اور اپنے وقت کا مشہور ترین حکمران سمجھا جاتا تھا۔ اس نے بدھ مت کی تبلیغ میں نمایاں حصہ لیا لیکن اس کی زیادہ توجہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی طرف رہی اور گندھارا کے علاقہ(سوات، باجوڑ،بونیر، مردان، چارسدہ ،ٹیکسلا وغیرہ) میں بدھ مت کی کسی غیر معمولی سرگرمی کا پتہ نہیں چلتا۔ چندر گپتا کے بعد اس کے بیٹے’’بندوسر‘‘ نے 297 قبل مسیح سے 272 قبل مسیح تک اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کامیابی سے حکومت کی۔ اس نے بھی ہندوستان میں بدھ مت کی تبلیغ پر خصوصی توجہ دی اور سندھ پار گندھارا کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔اس کے بعد چندر گپتا کے پوتے اور تاریخِ ہند کے مشہور ترین حکمران اشوک کی باری آئی۔ اس نے 274 قبل مسیح میں مسندِ اقتدار پر براجمان ہو کر اپنے آپ کو بدھ مت کی ترقی و تبلیغ کے لئے وقف کر دیا۔ بدھ مت کو ان کے عہدِ حکومت میں بہت عروج حاصل ہوا۔ ان ہی کے زمانے میں بدھ مت کو گندھارا میں مقبولیت حاصل ہوئی اور ان ہی کے دورِ حکومت میں بدھ مت کو ہندوستان سے نکل کر افغانستان ،سیلون اور دوسرے دور دراز کے ملکوں تک پہنچنے کا موقع ملا تھا۔ اشوک کے زمانہ میں ملک کے دور دراز کے علاقوں میں کتبے نصب کئے گئے جن میں علاقہ یوسف زئی کا کتبہ شاہبازگڑھی (مردان) کے مقام پر کافی شہرت رکھتا ہے۔237 قبل مسیح میں ہندوستان اور سلطنت گندھارا کا یہ مشہور حکمران دنیا سے رخصت ہوا۔ مہاراجہ اشوک کے بعد بدھ مت کا زوال شروع ہوا۔ ہندوؤں نے پھر سر اُٹھایا۔ یونانی حکمران جو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو چکے تھے، دوبارہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے تگ و دو کرنے لگے۔ اس دوران وسط ایشیا کے قبائل نے اس علاقے کا رخ کیا تو قبیلہ ساکا اور کشان وغیرہ گندھارا میں دکھائی دینے لگے۔ ٭…٭…٭