مولانا خانزیب

آج سے ایک ہزار سال پہلے بنائی گئی اس مسجد کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے، یہاں پر گارڈز مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیاحوں کو ایک بات کی تلقین خاص طور پر کرتے ہیں کہ آپ کو مسجد کے احاطے میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے، کیوں کہ اس سے نیچر ڈسٹرب ہونے کا احتمال ہے، بالفاظ دیگر ایک ہزار سال پہلے جو چیز جہاں رکھی گئی تھی، اگر اسے وہاں سے اٹھایا گیا تو اس کی فطری کشش میں کمی واقع ہو جائے گی

اسلام میں مساجد کی حیثیت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی طرح محض عبادت کی ادائیگی کیلئے مختص کی گئی ایک عمارت کی نہیں بلکہ مساجد معاشرہ کی ثقافتی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی اور رفاہی قیادت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔نماز کی جماعت کی ایک حکمت اشرف علی تھانوی کے مطابق لوگوں کے درمیان باہمی سماجی ربط بھی ہے جس سے معاشرے کی اجتماعیت کے احساس کو جگا کر بہت مثبت نتائج سوسائٹی کے اجتماعی خیر کے حوالے سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

سجد میں مسلمانوں کا اجتماع ان کی اجتماعی تربیت کے حوالے سے ایک بہترین منظم ادارے کی ہے۔ اگر لوگوں کو مساجد کی طرف راغب کرنا ہے تو آئمہ مساجد کیلئے ایک علیحدہ تربیت کی ضرورت ہے جس میں ان کو سوسائٹی کی سماجیات کے حوالے سے پڑھایا جائے جہاں وہ لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور وحدت کے حوالے سے تمام اصول و ضوابط سے آگاہ ہوں، وہ دین کے پختہ علم کے ساتھ کے ساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی بہرہ مند ہوں تاکہ وہ لوگوں میں افتراق و انتشارکے بجائے یگانگت کا باعث بنیں۔ خصوصیت کے ساتھ جمعہ کی تقریر میں مساجد میں غیر سنجیدہ تقاریر اپنے سیاسی نظریے اور لوگوں کو فرقہ ورانہ انتشار میں مبتلا کرنے پر مکمل پابندی عائد ہو کیونکہ موجودہ وقت میں لوگ ان غیرضروری اور علم و شعور سے عاری محض جذباتی تقاریر سے اکتا چکے ہیں اور مجھے ذاتی طور پر یاد نہیں کہ میں نے جمعہ کی تقریر میں کسی خطیب سے سوائے اپنے استاد مولانا حسن جان شہید کے کوئی دینی مسئلہ سیکھا ہو۔ مولانا حسن جان جمعہ کے دن صرف بیس منٹ لکھے گئے سوالات کے جوابات دیتے اور پھر خطبہ پڑھ کر نماز پڑھاتے۔ جمعہ کی لمبی چھوڑی تقاریر کو انتہائی مختصر اور معاشرے میں وقوع پذیر رسوم و روایات کو قابلِ اصلاح بنانے کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روایات و ترغیبات شامل ہو، مساجد میں باھر سے آنے والے ان پیشہ ور جذباتی مقررین کی تقاریر نے بھی دینی ہم آھنگی کو نقصان پہنچایا ہے جن کی تقاریر میں صرف مسخرہ پن اور عوام الناس کی تضحیک و تذلیل کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہم وقت و زمان کی مناسبت سے مساجد کے ماحول کو بنانے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں تو شائد اس طرح لوگ کچھ سیکھنے کے جذبے سے آئیں گے نہیں تو لوگوں کا اعتماد مزید اٹھتا رہے گا۔


تاریخی طور پر پختونوں کی سرزمین زمانوں سے بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہی ہے۔ اسی طرح پختونوں کے اسلام سے قبل یہاں پر موجود آثار و حقائق کی روشنی میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کے لوگ ماضی میں ان تمام تہذیبوں کے زیر اثر رہے ہیں جو یہاں پر مختلف زمانوں میں گزری تھیں۔ پختون مذہبی حوالے سے ہمیشہ حساس رہے ہیں، جو دھرم بھی ان کے جغرافیہ میں ان کو اچھا لگا اسے دل کھول کر قبول کیا جس کی مثال بدھ مت اور اسلام کے آثار کی بنیاد پر دی جا سکتی ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطے کے باسیوں کا ذوق جمالیات گندھارا آرٹ کی شکل میں بہت ہی پھلا پھولا ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ اس قوم کو اگر آپ آج بھی تھوڑا سا عالمی طاقتوں کی رسہ کشیوں کے ساتھ اپنے اور پرائیوں کے خوفناک تزویراتی عزائم سے تھوڑا بھی دور کر لیں تو یقین جانئے کہ ان کو آج بھی اوج ثریا تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان پرانے آثار کو تباہ کرنا دین کی کوئی خدمت نہیں۔

پختونوں کے وطن پر عرب سرزمین سے عثمان غنی کے وقت سے حملے شروع ہوئے تھے مگر یہاں کے لوگوں کی مزاحمتی تاریخ کی روشنی میں کبھی بھی ان پر کوئی دیرپا حاکمیت مسلط نہیں رہی ہے اور تقریباً چار صدیوں تک یہاں طوائف الملوکی اور انارکی میں گزرے ہیں۔ محمود غزنوی کے وقت سے پہلے تک اسلام جزوی طور پر یہاں پھیلا تھا جبکہ عہد غزنوی کے بعد پختون زیادہ تعداد میں مسلمان ہوئے اور ان کی پرانی تہذیبی تاریخ کی کایا پلٹ گئی۔ اسلام کے اس پھیلاؤ کا ایک سبب محمود غزنوی کی ہندوستان کی طرف مسلسل مہم جوئی تھی، وہ باجوڑ سوات سے ہو کر ہندوستان کی طرف نکل جاتا تھا، بڑے پیمانے پر جگہ جگہ سے پختون ان کے لشکر کا حصہ بن جاتے تھے جن کو بڑی تعداد میں ہندوستان کی سرزمین پر مال غنیمت مل جاتا تھا جبکہ محمود غزنوی کے لشکر نے یہاں باجوڑ، دیر، سوات، صوابی اور دیگر علاقوں میں ان ہزاروں کی تعداد میں بدھ مت کی خانقاہوں کا بھی خاتمہ کیا جن کے زیر اثر پنپنے والے آرٹ کو دنیا گندھارا آرٹ کے نام سے جانتی ہے اور یہی دور اس عظیم آرٹ کے خاتمے کا سبب ثابت ہوا۔ اس وقت کے وہ معابد اس وقت کے علمی مراکز بھی تھے۔


چوتھی صدی ہجری کے بعد یہاں پر اسلام کے پھیلاؤ میں اس لئے حقیقت ہے کہ اس پوری سرزمین پر محمود غزنوی کے دور کے اوڈیگرام سوات کی مسجد کے علاہ آج تک کوئی اور ایک ہزار سالہ پرانی مسجد کہیں دریافت نہیں ہو سکی ہے جبکہ بدھ مت کی تہذیب کی ہزاروں خانقاہیں اور اسٹوپوں سمیت بڑی تعداد میں دیگر آثار وقتاً فوقتاً ملتے رہتے ہیں ۔ماہر آثار قدیمہ جلال الدین کا کہنا ہے کہ گیارہویں صدی کے دوران جب سلطان محمود غزنوی نے (پختون خوا) پر حملہ کیا تو اس کی فوج باجوڑ کے راستے دیر سوات کی تاریخی وادی میں داخل ہوئی۔ فضل خان اپنی کتاب ”ادھیانہ سوات کی جنت گم شتہ” میں لکھتے ہیں کہ سوات کی وادی میں داخل ہونے کے بعد علاقے کو فتح کرنے کے لیے سلطان محمود غزنوی نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا: ایک گروپ جس کی سربراہی وہ خود کر رہے تھے دریا عبور کرنے کے بعد اس تاریخی علاقے میں داخل ہوا اور اس کے بعد اس وقت کے آخری بادشاہ راجہ گیرا کے ہیڈ کوارٹر بڑے قلعے پر حملہ آور ہوا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد سلطان محمود غزنوی نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور اس وقت کے حاکم منصور نے یہ مسجد تعمیر کروائی۔

1985 میں اس مسجد کو دریافت کرنے والے اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے اس عبادت گاہ کی بوسیدہ دیواروں کو دوبارہ تعمیر کیا جبکہ مسجد کو جانے والے راستے اور وضو خانے بھی تعمیر کئے۔ ساتھ ساتھ اس مسجد کو چاروں طرف سے محفوظ بھی بنایا گیا۔ اوڈیگرام میں پہاڑوں کے دامن میں 1984 میں مسجد کے احاطے سے ماربل کا ایک چوکور کتبہ دریافت ہوا جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشتگین کے زیر نگرانی مسجد تعمیر کروائی جس کا مقصد علاقے میں اسلام کا فروغ تھا۔ مسجد کے ایک کونے میں اسٹوپے کے آثار بھی ملتے ہیں۔ شمال کی طرف تین بڑے ہندو شاہی طرزِ تعمیرکے برج بھی ہیں۔ مسجد میں یہاں کی خانقاہ کے پتھر بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہاں بدھ مت کے دور کی عبادت گاہ کو ڈھا کر یہ مسجد بنائی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق مسجد کی تعمیر کے وقت اسٹوپا کو نہیں گرایا گیا تھا، اسٹوپا مسجد سے کئی صدیاں قبل بنی تھی جو آج بھی موجود ہے۔ ستونوں کی تعداد شمالاً جنوباً چھ جبکہ شرقاً غرباً آٹھ ہے۔ محراب چوکور طرز کی ہے۔ مسجد کے صحن کو شٹ پتھر کے سلوں سے مزین کیا گیا ہے۔


ایک اور ماہر آثار قدیمہ فضل خالق کے مطابق مسجد کے مقام پر بدھ مت دور کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ یہ آثار مسجد کی تعمیر سے پہلے بھی یہاں موجود تھے جنہیں توڑا گیا اور پھر انہی پتھروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اوڈیگرام (سوات) کی سلطان محمود غزنوی مسجد قدیم اسلامی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ مسجد میں 30 فٹ چوڑی دیوار، عام کمرے، طالب علموں کے کمرے، ان کے پڑھنے کی جگہ، قبرستان اور صحن میں پانی کا ایک تالاب بھی موجود ہے۔ کافی بلندی پر واقع اس مسجد تک جانے کے لیے ایک کشادہ راستہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیرِ نو کا کام 2011 میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن کی نگرانی میں انجام پایا اور اس پر دو ملین یورو کی لاگت آئی۔ اٹالین آرکیالوجیکل مشن پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لوکا ماریا الویری کے مطابق مسجد کی تزئین و آرائش پاکستان اور روم حکومت کے درمیان 2006 میں طے ہونے والے سو ملین ڈالر کے ایک آرکیالوجیکل معاہدے کا حصہ ہے۔ اٹلی کے آرکیالوجیکل مشن کے تحت اوڈیگرام میں مسجد کے آثار کھوجنے کا کام 1985 سے لے کر 1999 تک جاری رہا۔ مسجد کے باہر لگے ایک بورڈ پر مسجد کی مختصر تاریخ لکھی گئی ہے جس کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے مسجد کی بنیاد49-1048 میں ڈالی تھی۔ یہ شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد مانی جاتی ہے۔ مذکورہ کتبہ ہاتھ آنے کے بعد ہی اٹلی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے1984 میں ”سلطان محمود غزنوی مسجد” کو دریافت کیا تھا۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے بنائی گئی اس مسجد کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر گارڈز مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیاحوں کو ایک بات کی تلقین خاص طور پر کرتے ہیں کہ آپ کو مسجد کے احاطے میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ کیوں کہ اس سے نیچر ڈسٹرب ہونے کا احتمال ہے۔ بالفاظ دیگر ایک ہزار سال پہلے جو چیز جہاں رکھی گئی تھی، اگر اسے وہاں سے اٹھایا گیا تو اس کی فطری کشش میں کمی واقع ہو جائے گی۔ مسجد تعمیر کرتے وقت اس کے صحن کے عین درمیان پانی کا ایک تالاب بنایا گیا تھا جسے آج بھی اسی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دور میں لوگ نماز پڑھنے کی خاطر وضو اسی حوض کے پانی سے کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے وقت اس جگہ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو پانی کی سپلائی لائن کہلاتی ہے۔ مسجد سے بارش یا پھر وضو کے استعمال شدہ پانی کو نکالنے کا طریقہ بھی اس دور کی انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔ تقریباً ایک اسکوائر فٹ نالی باقاعدہ ایک سیڑھی کی شکل میں بنائی گئی ہے جس کی مدد سے پانی مسجد کے احاطے سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے ہال میں ایک محراب بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ مسجد کی دیواریں عام پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ قبلہ رو کھڑے ہو کر بائیں جانب کی دیوار تیس فٹ اونچی ہے، یعنی آج کی تعمیرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی بھی تین منزلہ عمارت جتنی اونچی دیوار ہے۔