ڈاکٹر محمد علی دیناخیل
بیس اکتوبر2017ء کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے مدین میں ایک جلسہ میں بر سوات کے عوام کا مطالبہ مانتے ہوئے سوات کو دواضلاع میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد مختلف لوگوں کا رد عمل سامنے آیا۔ ان میں برسوات کے لوگوں نے اس کے حق میں سوشل میڈیا اور اخبارات میں لکھنا شروع کیا اور کوز سوات کے بعض لوگوں نے اس انتظامی تقسیم کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ اسی دوران میں جب مَیں ان مختلف قسم کی تحاریر کو پڑھتااور تقاریر کو سنتا ہوں، تو ان میں بے شمار تاریخی غلطیاں میری نظر سے گزرتی ہیں۔ لہٰذا اس قسم کی تاریخی غلطیوں کی تصحیح کیلئے میں نے سوات کے انتظامی تقسیم کا تاریخی جائزہ لیا ہے، تاکہ تاریخی تناظر میں اس بات کو غور سے دیکھا جائے۔ تاریخی جائزہ کے بعد میں اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ برسوات کو ایک الگ ضلع کی حیثیت دینے سے سوات کی تاریخی، تہذیبی اور سیاسی اہمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس انتظامی تقسیم سے سوات مزید ترقی کی راہ پہ گامزن ہوگا۔ کیوں کہ سیاستدان، سول سوسائٹی اور سماجی کارکن اپنے علاقے کی ترقی پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اس انتظامی تقسیم سے اگر ایک طرف برسوات کے عوام کوآسانی ہوجائے گی، تو کوز سوات کے عوام کو بھی بعض آسانیاں مل جائیں گی۔ کم ازکم یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس انتظامی تقسیم سے کوز سوات کے عام لوگوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ شائد بعض سیاسی لوگوں کو اپنے کچھ ذاتی نقصانات نظر آتے ہوں، اس لئے وہ اس عوامی سہولت، ترقی اور آسانی کے خلاف ہیں۔بہرحال میری اس تحریر کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے بلکہ تاریخ اور تحقیق کے طالب علم ہونے کے ناتے میں تاریخی غلطیوں کی تصحیح کی خاطر یہ تحریر پیش کر تا چلوں۔
جب ہم سوات کی حدود اور طبعی جغرافیہ کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں، تو ہم سوات کی تاریخ کو تین ادوار میں بانٹتے ہیں ۔
پہلا دور: قبل از ریاستِ سوات۔
دوسرا دور: ریاستی دور۔
تیسرا دور: ریاست کے انضمام کے بعد کا دور۔
جب ریاستِ سوات وجود میں نہیں آئی تھی، تو سوات کی اپنی طبعی حدود ہوا کرتی تھیں۔ جب سوات کی ریاست وجود میں آئی، تو ہمسایہ ریاستوں سے بعض علاقوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہوئے۔ اس وجہ سے بعض ایسے علاقے جو سوات کا طبعی حصہ تھے، ان کو سوات سے الگ کر کے دوسری ریاستوں کے ساتھ ملحق کیا گیا اور اس طرح ان علاقوں سے سوات کا نام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوا۔ اس کے برعکس ریاستِ سوات کے حکمرانوں نے ریاست کی حدود ایسے علاقوں تک پھیلائیں جو اس سے پہلے سوات کا طبعی حصہ نہیں تھیں۔ ان علاقوں کو قبضہ کرنے کے بعد انہیں ریاستِ سوات میں شامل کیا گیا۔ ایسے علاقوں میں بونیر، کوہستان اور شانگلہ شامل تھے۔ اسی طرح اگر ہم دیکھیں، تو طبعی سوات کے شمال کی طرف ادینزئی کا علاقہ اور مغرب کی طرف لنڈاکی سے قلنگی تک یہ علاقے جدا کرلئے گئے۔ ادینزئی کا علاقہ 1922ء میں ایک معاہدے کے تحت دیر کی ریاست کے ساتھ شامل کیا گیا۔ اس طرح لنڈاکی سے قلنگی تک ان علاقوں کو انگریز کنٹرول والے علاقے ’’ملاکنڈ پروٹکٹیڈ ایریا‘‘ میں شامل کیا گیا۔ یوں سوات نے ایک طرف اپنے ان طبعی علاقوں کو کھویا، تو دوسری طرف ریاست کے حکمرانوں نے ریاست کی حدود کو توسیع دے کر بونیر، کانڑا، غوربند اور کوہستان کے علاقوں کو قبضہ کرکے انہیں ریاستِ سوات میں شامل کرلیا۔ ریاستِ سوات کے حکمرانوں نے سب سے آخر میں جن علاقوں کو قبضہ کرنے اور ان کو ریاستِ سوات میں شامل کرنے کی ناکام کوشش کی، وہ کالام اور ملحقہ علاقے تھے۔ چودہ اگست 1947ء کو جب برطانوی حکومت ان علاقوں کو چھوڑ کر جانے والی تھی، تو اس نے سوات کے حکمران کو 14 اگست کی رات کو کالام پر قبضہ کرنے کا اشارہ دے دیا، لیکن جب پاکستان بنا، تو انہوں نے اس قبضے کو غیر قانونی قرار دیا اور سوات کے حکمران کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ بعد میں ایک معاہدے کے تحت سوات کے والی کو پاکستان کی حکومت کی طرف سے کالام کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا اور اس کے بدلے میں حکومتِ پاکستان آپ کو سالانہ مقرر کردہ رقم (چوبیس ہزار روپیہ) دیا کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ رقم سالانہ دس ہزار روپیہ تھی۔ کالام اور ملحقہ علاقوں کو انگریزوں نے اس لئے سوات کی ریاست کا حصہ بننے نہیں دیا کہ ان علاقوں پر تینوں ریاستوں یعنی چترال، دیر اور سوات کا دعویٰ تھا، تو اس لئے انگریزوں نے ان علاقوں کو آزاد چھوڑ دیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کالام کے جنگلات وغیرہ کی وجہ سے انگریز حکومت ان علاقوں کو کسی کے قبضہ میں نہیں دینا چاہتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھ کر بھی ان علاقوں کو آزاد رکھا گیا ہو۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا لیکن کالام اور ملحقہ علاقے ریاست سوات کا حصہ نہیں رہے۔
کالام اور ملحقہ علاقوں کو انگریزوں نے اس لئے سوات کی ریاست کا حصہ بننے نہیں دیا کہ ان علاقوں پر تینوں ریاستوں یعنی چترال، دیر اور سوات کا دعویٰ تھا، تو اس لئے انگریزوں نے ان علاقوں کو آزاد چھوڑ دیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کالام کے جنگلات وغیرہ کی وجہ سے انگریز حکومت ان علاقوں کو کسی کے قبضہ میں نہیں دینا چاہتی تھی۔
جب 1969ء میں ریاستِ سوات کو پاکستان کے ساتھ ضم کیا گیا اور اس ریاست کو ایک ضلع کی حیثیت دی گئی، تو اس وقت کالام کو بھی اس ضلع میں شامل کیا گیا اور اسی طرح ریاست سوات کے علاقوں بشمول کالام کو ایک ضلع بنایا گیا جو کہ ضلع سوات کہلایا جانے لگا۔ بعد ازاں 1976ء میں اباسین کوہستان کے جو علاقے ضلع سوات میں شامل تھے، ان کو علیحدہ کر کے کوہستان کے نام سے ایک جدا ضلع بنا یا گیا اور 1991ء میں بونیر اور ملحقہ علاقوں کو جدا کر کے بونیر ضلع بنایا گیا۔ اس طرح 1995ء میں کانڑا، غوربند اور پورن چکیسر وغیرہ علاقوں کو شانگلہ کے نام سے ایک الگ ضلع بنایا گیا۔ یاد رہے کہ کوہستان، بونیر اور شانگلہ کو علیحدہ علیحدہ ضلع بنانے کیلئے اس وقت کے لوگوں نے بھی کافی تحریکیں چلائی تھیں اور انتظامی سہولت کی خاطر ہی حکومت نے عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان علاقوں کو الگ الگ ضلع بنایا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کوہستان، بونیر اور شانگلہ کے علاقے جو بعد میں علیحدہ علیحدہ ضلعے بنے، ان علاقوں کو تاریخی دستاویزات میں ریاستِ سوات میں شامل کرنے سے پہلے سوات کے نام سے یاد نہیں کیا گیا ہے بلکہ زیادہ تر مذکورہ بالا علاقوں کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ اباسین کوہستان، بونیر اور شانگلہ کو علیحدہ ضلعوں کی شکل دینے کے بعد اب سوات کے طبعی علاقوں پر مشتمل جو علاقہ باقی رہ گیا، ان میں کالام اور ملحقہ علاقے شامل کرکے سوات کے نام سے ایک جدا ضلع باقی رہ گیا۔ لیکن یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہئے کہ طبعی سوات کے ان علاقوں کو ضلع سوات میں شامل نہیں کیا گیا جنہیں یا انگریزوں نے 1897ء میں ’’ملاکنڈ پروٹیکٹڈ ایریا‘‘ میں شامل کیا تھا (لنڈاکی سے قلنگی تک علاقے) اور یا انہیں 1922ء میں ایک معاہدے کے تحت دیر کے ساتھ شامل کیا گیا تھا یعنی ادینزئی کا علاقہ۔
جیسا کہ اوپر واضح ہوگیا کہ سوات کی حدود اور سرحدات میں وقتاً فوقتاً سیاسی اور انتظامی وجوہات کی بنا پر تبدیلیاں آئی ہیں، تو اسی وجہ سے مختلف ادوار میں سوات کی حدود کو سمجھنے کیلئے ہم سوات کے ساتھ تین قسم کے سابقے لگا تے ہیں یعنی وادئی سوات، ریاستِ سوات اور ضلع سوات۔ ان ہی سابقوں سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مختلف ادوار میں سوات کی حدود کیا تھیں، اس میں کون کون سے علاقے شامل تھے اور کون کون سے علاقے اس میں شامل نہیں تھے؟ ریاست سوات کی طبعی حدبندی سے پہلے والی سرحدات اور علاقوں کو ہم وادئی سوات کہتے ہیں۔ وادئی سوات میں بعض وہ علاقے شامل نہیں تھے جنہیں بعد میں ریاست کی حدود کو توسیع دیتے ہوئے شامل کیا گیا۔
اس طرح ریاستِ سوات کے دور میں دو طرح کی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف بعض ایسے علاقے جو طبعی وادئی سوات کا حصہ تھے، ان کو وادئی سوات سے جدا کیا گیا، مثلاً ادینزئی علاقہ اور دوسری طرف ایسے علاقوں کو سوات کی ریاست میں شامل کیا گیا جو طبعی وادئی سوات کا حصہ نہیں تھے یعنی کوہستان، بونیر اور شانگلہ کے علاقے۔
جب سوات، ریاستِ پاکستان کے ساتھ 1969ء میں ضم ہوگیا اور ریاست پر مشتمل علاقوں کو ایک ضلع کی حیثیت دی گئی، تو عین اسی وقت کالام کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ اس طرح ضلع سوات کی حدود 1976, 1991 اور 1995ء میں بالترتیب کوہستان، بونیر اور شانگلہ ضلع بننے کی وجہ سے گٹھنے لگیں۔ 1995ء کے بعد سے اب تک سوات کی حدود میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چینی زائرین کے بعد جو اہم شخص سوات آیا ہے اور جس نے سوات کی حدود کو بیان کیا ہے، وہ خوشحال خان خٹک ہے۔ اس نے سوات کی سرحدات کو ان اشعار میں بیان کیا ہے:
و شمال و تہ ئے غر بلورستان دے
شرق کشمیر غرب ئے کابل او بدخشان دے
د چترال سرحد د سوات سرہ قریب دے
غر او سم ئے ابادان جریب جریب دے
و چترال و تہ ئے لار د کوہستان زی
تر چترالہ پہ پینزہ ورزے کاروان زی
بلہ لار چے د پٹن زی تر کاشغرہ
بلہ لار کہ پہ مورنگ زی لرہ برہ
سوات سے چترال کو دو راستے جاتے ہیں ایک دیر کی طرف اور ایک سوات کوہستان کی طرف۔ خوشحال خان خٹک نے اکوڑہ خٹک اور سوات کے درمیان تیس کرو فاصلہ بیان کیا ہے:
سرائے لہ سواتہ فاصلہ لری دیرش کروہہ
چے ورکوز شی تر دریا د سوت تر کوہہ
خوشحال خان خٹک نے وادئی سوات کی چوڑائی کو تقریباً تیس کروہ بیان کیا ہے:
طولانی درہ تر دیرشو کروہو ڈیرہ
عرض ئے دوہ کروہہ یا یو یا تیر و بیرہ
اہم مستشرق میجر راورٹی نے سوات کے آخری گاؤں کا نام پیاــ لکھا ہے۔ پیا سے آگے آپ نے کوہستان کے علاقے کی حد شروع ہونے کا ذکر کیا ہے۔ چورڑئی (مدین) اور تیرات کے علاقے اخون کریم داد ابن اخون درویزہ کے دور میں سوات میں شامل ہوئے ہیں۔ سوات میں شامل ہونے سے پہلے یہ علاقے (سوات) کوہستان میں شمار ہو تے تھے۔ تواریخ حافظ رحمت خانی نے قبلہ کی جانب سوات کی سرحد ملاکنڈ ٹاپ کو بیا ن کیا ہے اور جنوب کی طرف سوات کو مورہ کنڈاو تک بیان کیا ہے۔ تواریخ حافظ رحمت خانی میں ایک جگہ سوات کے بارے میں ایسا لکھا گیا ہے: ’’درست سوات تر توروالہ تر تیراتہ تر پنجکوڑے تر نیاکہ۔‘‘ میک موہن طبعی وادئی سوات اور (سوات) کوہستان کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
The upper portion of its valley and the drainage area of its affluents as far as down as the village of Ain, near Baranial [Bahrin], is known by general term of Swat Kohistan. The inhabitants of Swat kohistan are Torwals and Garhwis, who are non Pathan races.
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مغرب کی طرف وادئی سوات کی حدود ملاکنڈ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ بٹ خیلہ اور مضافات جو ریاستِ سوات کا حصہ بھی نہیں رہے ہیں اور ضلع سوات میں بھی شامل نہیں تھے لیکن ایک وقت ایسا تھا کہ یہ علاقے وادئی سوات کی طبعی حدود میں شامل تھے۔ اس بات کا پتا ہمیں پشتو زبان کے ایک معروف شاعر عبدالعظیم سواتی (صواتی) کے کلام سے چلتا ہے۔ عبدالعظیم سواتی 1127 ہجری کو خار (بٹ خیلہ) میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ پشتونوں کے رانڑیزئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے لیکن آپ نے اپنے آپ کو ’’سواتے‘‘ لکھا ہے۔ کیوں کہ یہ علاقے اس زمانے میں سوات میں شمار ہوتے تھے۔ اس حوالے سے آپ کا ایک شعر عرض ہے:
زہ صواتے عظیم لہ اصلہ رانڑیزے یم
دروغ نشتہ دے پہ دے کے وائم سچ
ترجمہ: میں عظیم صواتی (سواتی) نسلی اعتبار سے رانڑیزی ہوں ۔ اس میں جھوٹ نہیں ہیں میں سچ بیان کرتاہوں ۔
تاریخی دستاویزات میں سوات کو طبعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا لکھا گیا ہے۔ ان دو حصوں کو ’’کوز سوات‘‘ اور ’’بر سوات‘‘ کہتے ہیں ۔ میجر راورٹی نے سوات کے دو حصوں میں طبعی اور قدرتی تقسیم کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ بھی ’’کوز سوات‘‘ اور ’’بر سوات‘‘ ہے۔ اس بارے میں آپ نے لکھا ہے کہ مانیار سے طوطہ کان تک کوزسوات ہے اور مانیار سے پیا تک برسوات ہے۔ سوات کے مختلف حصوں اور طبعی تقسیم کے بارے میں امپیرئل گزیٹیئر آف این ڈبلیو ایف پی میں اسی طرح لکھا گیا ہے (یاد رہے کہ یہ گزیٹیئر تقریباً1908 میں شائع ہو چکا ہے):
Swat is divided into two distinct tracts: one, the Swat Kohistan, or mountain country on the upper reaches of the Swat river and its affluents as far south as Ain; and the other, Swat proper, which is further subdivided into Bar (Upper) and Kuz (Lower) Swat, the later extending from Landakai to Kalangai, a few miles above the junction of the Swat and Panjkora rivers.
.
میک موہن نے اپنی رپورٹ میں کوز سوات کی حدود کو قلنگی تک بیان کیا ہے۔ وہ اس بارے میں یوں رقمطراز ہیں :
From the village of Ain commences Swat proper. The upper portion from there down to the Landakai spur, five miles above Chakdara, is known as Bar (Upper) Swat, while the lower portion from Landakai downwards as far as the village of Kalangai is called Kuz (Lower) Swat.
.
ادینزئی کا علاقہ جو تالاش تک پھیلا ہوا ہے یہ بھی وادی سوات کا حصہ تھا اور 1922ء تک ریاستِ سوات میں شامل تھا۔ دریائے سوات کے دائیں جانب سوات کی حدود بڑنگولہ تک بیان کی گئی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے وادئی سوات کی حدود طوطہ کان تک پھیلی ہوئی تھیں اور طوطہ کان سے آگے اتمان خیل کا علاقہ ہے جو تاریخی دستاویزات میں سوات سے باہر ایک علیحدہ علاقہ بیان کیا گیا ہے۔ بونیر کو ریاست سوات میں تو شامل کیا گیا تھا لیکن ریاست سوات سے پہلے یہ وادئی سوات میں شامل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ راورٹی نے اپنے مقالہ میں بونیر کو سوات سے ایک علیحدہ علاقہ یاد کیا ہے۔ انگریزوں نے ملاکنڈ کو 1895ء میں ایجنسی کا درجہ دیا۔ اس سے پہلے ملاکنڈ کے بعض علاقے وادئی سوات میں شامل تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سوات اور ملاکنڈ کا ایک ہی تہذیبی پس منظر ہے۔ بیلیو نے اپنی کتاب (مطبوعہ 1864ء) میں سوات کی حدود کے بارے میں یہ لکھا ہے:
The Swat valley is a rich and fertile strip of land between the Ilam range and its extension westwards, as far as Hazarnao on the south, and the Laram mountains, with its western and eastern prolongations, the Kamrani and Munjai mountains, on the north. Its eastern limit is at the Ghorband peak and towards the west at the Hatmankhail [Utmankhail] hills and Bajawar.
.
وادئی سوات کی چوڑائی اور لمبائی کے بارے میں بیلیو نے لکھا ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک لمبائی تقریباً ستر میل ہے۔ اور اوسطاً چوڑائی تقریباً دس میل ہے۔ سید عبدالغفور قاسمی نے لکھا ہے کہ ریاستِ سوات کے مشرق میں اباسین، مغرب میں تھانہ اور ادینزئی کا علاقہ، شمال میں دیر ریاست اور جنوب میں ضلع مردان اور دربند کی ریاست واقع ہے۔ محمد نواز طائر نے سوات کی حدود کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک زمانے میں قلنگئی ترئی سے لے کر مدین تک یہ تمام علاقہ سوات کہلایا جاتا تھالیکن جب ریاست بنی تو علاقائی حدبندیوں میں تبدیلیاں آئیں اور اسی طرح بائیزے رانڑیزے کے علاقے ملاکنڈ ایجنسی میں شامل ہوئے اور ادینزئی دیر ریاست میں شامل ہوا۔ اس طرح گوڑے کی ٹاپ اور لنڈاکی کی پنگھٹ سے اوپر کا علاقہ سوات رہ گیا۔ ریاست سوات کی حدود کے بارے میں جارج گٹلے نے یوں لکھا ہے:
It is bordered on the North by Chitral State and Gilgit, on the North west by Dir state, on the South by the District of Mardan on the east by the District of Hazara and on the West by Malakand Tribal Area of Pakistan. It runs 100 miles from North to South and 50 miles from East to West at its longest and widest points, with a total area of 400 square miles.
.
ریاست سوات میں جو علاقے شامل تھے ان کے بارے میں مخدوم تصدق احمد یوں لکھتے ہیں:
The actual position today is that the area lying south of Landakai is not referred to as Swat. What is called Swat today consists of (I) the valleys lying between Landakai and Kalam and certain adjacent areas, (II) the valleys of Chamla and Buner which are separated from the Swat valley by Mount Ilam, (III) the mountainous region known as the Indus Kohistan which is bounded by the river Indus on the one hand, and the high hills situated to the east of Kalam on the other hand, (IV) Kalam valley which territorially is not a part of Swat State but is administered by the ruler (Wali) on behalf of the Government of Pakistan.
.
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کوہستان، بونیر اور شانگلہ کے علاقے تاریخی دستاویزات میں طبعی طور پر سوات کا حصہ نہیں تھے۔ اسی طرح لنڈاکی سے ملاکنڈ (قلنگئی) تک یہ علاقے طبعی سوات کا حصہ تھے لیکن جب انگریزوں نے ملاکنڈ ایجنسی بنائی تو ان کو سوات کی طبعی جغرافیہ سے الگ کر کے ملاکنڈ ایجنسی کا حصہ بنایا۔ اس طرح ادینزئی کا علاقہ ریاست سوات سے جدا کر کے 1922ء میں ایک معاہدے کے تحت دیر کی ریاست کے ساتھ شامل کیا گیا۔
سوات کے طبعی اور انتظامی تقسیم کار کا تاریخی جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجہ پہ پہنچتے ہیں کہ برسوات کو ایک الگ ضلع کی حیثیت دینے سے سوات کی تاریخی، تہذیبی اور سیاسی اہمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیوں کہ دونوں اضلاع کا نام سوات ہوگا۔ صرف ایک سابقہ ان کے ساتھ لگایا جائے گا یعنی کوز سوات (Lower Swat)اور بر سوات(Upper Swat)۔ ویسے بھی تاریخی دستاویزات میں اسی قسم کے سابقوں اور لاحقوں کو مؤرخین نے استعمال کیا ہے۔ اگر سوات کو انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس انتظامی تقسیم سے سوات مزید ترقی کی راہ پہ گامزن ہوگا۔ کیوں کہ سیاستدان، سول سوسائٹی اور سماجی کارکن اپنے علاقے کی ترقی پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اس انتظامی تقسیم سے اگر ایک طرف برسوات کے عوام کوآسانی ہوجائے گی تو دوسری طرف کوز سوات کے عوام کو بھی بعض آسانیاں مل جائیں گی۔ کم ازکم یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس انتظامی تقسیم سے کوز سوات کے عام لوگوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔
اگر طبعی جغرافیہ کو مدنظر رکھا جائے تو آبادی میں اضافہ کی وجہ سے موجودہ ضلع سوات تین اضلاع میں بھی تقسیم ہوسکتا ہے اور پھر ان اضلاع کے نام کوز سوات، برسوات اور سوات کوہستان ہوں گے اور اسی طرح یہ تینوں اضلاع ایک ہی ڈویژن پر مشتمل ہوں گے جسے سوات ڈویژن کہا جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جاتی کتب
Ahmad, Makhdum Tasadduq, Social Organization of Yusufzai Swat, Lahore, Punjab University Press, 1962
Bellew, H.W., A General Report on the Yusufzais, Lahore, Sang-e-Meel Publications, 2001/1864
Getley, George, Swat: Switzerland of the East, 1963
[Hiuen Tsiang], Chinese Accounts of India translated from the Chinese of Hiuen Tsiang, translated and annotated by Samuel Beal, Vol. 2, new edn.(Calcutta: Susil Gupta (India) Limited, 1958)
Imperial Gazetteer Provincial series North-West Frontier Province, Lahore, Sang-e-Meel Publications, 2002,
Mc Mahon, A.H., and Lt. D.G. Ramsay, Report on the tribes of Dir, Swat and Bajour together with the Utmankhel and Sam Ranizai, Peshawar, Saeed Book Bank, 1981/1901
Sultan-i-Rome, Swat State (1915-1969) From Genesis to Merger, Karachi, Oxford University Press, Second Impression 2009
Tucci, Giuseppe, On Swat: Historical and Archaeological notes, Islamabad, Quaid-i-Azam University, 2013
خٹک، خوشحال خان، سوات نامہ، مقدمہ تحقیق او سمون: ہمیش خلیل، اکوڑہ ختک، مرکزی خوشحال ادبی و ثقافتی جرگہ، 1986
عبدالعظيم، ديوان عبدالعظيم، پشاور، اداره اشاعت سرحد، 1959
[2] خوشحال خان نے شائد دیر کے علاقے کو کوہستان کہا ہے۔ اب بھی مقامی طور پر وادئی پنجکوڑہ کو کوہستان کہا جاتا ہے۔ سوات کوہستان یعنی کالام اور بحرین کے علاقوں سے جو راستہ چترال جاتا ہے وہ بالائی چترال میں نکلتا ہے۔ قیاس ہے کہ خوشحال خان خٹک کو ان پہاڑی علاقوں کا اتنا اندازہ نہ ہواور ان کی مراد بالائی دیر ہی ہو۔ مدیر