فضل رازق شہابؔ
آپ کے گھر میں جو یہ بیوی نام کی مخلوق رہتی ہے اسے کوئی فکسچر(fixture) نہ سمجھنا۔ اس کو گھر کی دوسری چیزوں کی طرح ”ٹریٹ“ مت کرنا۔ یہ گوشت پوست کی بنی ہوئی ہے اور اس کے بھی جذبات اور احساسات ہیں۔ یہ کوئی کراکری، فرنیچر یا ڈیکوریشن پیس نہیں۔ ایک اور بات، یہ نہایت اہم ہے۔ تم سے صرف بیوی ہی بے غرض اور سچی محبت کرسکتی ہے اور کرتی بھی ہے۔ چاہے آپ کتنے ہونق کیوں نہ ہوں، آپ کی سماجی حیثیت یا خاندانی مرتبہ کچھ بھی ہو، اس کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ بس اُس کی شادی آپ سے ہوگئی اور پہلے ہی دن سے وہ آپ سے محبت کرنے لگ جاتی ہے۔ محبت تو ایک عام سا لفظ ہے، وہ آپ کی پرستش شروع کرتی ہے۔ تم لاکھ اُس کو دھتکار دو، وہ تمہاری پیروں سے لپٹ جاتی ہے۔ تم ادھر اُدھر منھ مارتے ہو، تو اُسے فوراً پتا لگ جاتا ہے۔ وہ کڑھتی ضرور ہے، مگر گلہ شکوہ نہیں کرتی، بلکہ موم بتی کی طرح جل جل کر پگھل جاتی ہے۔ یہ سب باتیں مجھے اُس وقت یاد آگئیں جب میری بیوی کو مرے ہوئے سوا تین سال کا عرصہ گزر گیا تھا، اور میں اپنے گاؤں کی ایک مشہور کاروباری شخصیت حاجی عبدالواحد خان فتح خان خیل کی بیوی کی وفات پر اُن سے تعزیت کرنے گیا تھا۔ لوگ نہ جانے کیا باتیں کررہے تھے، مَیں اسی ٹریک پر اپنی گذشتہ زندگی میں واک کررہا تھا۔ مجھے اپنی بیوی کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی اور بعض باتیں اور واقعات دل پر کچو کے لگا رہے تھے۔ کاش، مَیں ایسا نہ کرتا، کاش میں اُ س سے یہ نہ کہتا۔
اچانک میرے ذہن پر ایک شناسا سے شخص کا چہرہ نمودار ہوا۔ یہ میرے ایک نہایت قریبی دوست تھے۔ ہم دونوں اکثر ساتھ رہتے تھے۔ اُن کا کوئی راز مجھ سے پوشیدہ نہ تھا۔ ہم نہ صرف یہ کہ دفتر میں ساتھ ہوتے تھے، بلکہ اکثر شا میں بھی اکٹھی گزار تے تھے۔ سیدو شریف میں محمود ماما کا ہوٹل ہمارا مستقل ٹھکانا تھا۔ اُن کی بیوی نہایت وفا شعار لڑکی تھی، چوں کہ اس بات کو نصف صدی سے زیادہ کا وقت گزرا ہے۔ لہٰذا اس وقت ہم لڑکے ہی تھے۔ ایک دن میرے دوست نے مجھے نہایت راز داری سے بتایا کہ ایک الٹرا ماڈرن قسم کی لڑکی اُس سے محبت کرنے لگی ہے۔ وہ چپکے چپکے اُس کو ملنے آتی ہے، اور رو رو کر اُس کو اپنی محبت کا یقین دلاتی ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ جس دن اُسے نہ دیکھوں، ایک پل چین نہیں آتا۔ وہ اس کی باتوں میں پھنستا جا رہا تھا۔ وہ اُس کے لیے کپڑے لینے کے علاوہ قیمتی تحفے بھی دینے لگا تھا۔ مَیں نے اُس کو سمجھایا کہ بے وقوف آدمی تم میں سوائے دولت کے اور کیا خوبی ہے۔ صورت تمہاری مجھ سے بھی گئی گزری ہے، شراب نے تمہارا حلیہ عین جوانی میں بگاڑ دیا ہے۔ اپنی شریف بیوی اور بچوں کا کچھ خیال کرو۔ وہ کہنے لگا کہ یہ ساری باتیں ٹھیک سہی، مجھے تواس بے چاری لڑکی پر ترس آنے لگا ہے۔ وہ میرے لیے اتنی ہلکان ہو رہی ہے اور مَیں اُس کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ مَیں نے اُس سے لڑکی کا پتا پوچھا، جب اس نے بتایا تو میں لرز اُٹھا۔ ”بے وقوف! اُس کی تو شادی ہوئی ہے۔ اُس کا شوہر بے چارہ مزدوری کرتا ہے۔ اس لڑکی کو مَیں نے دیکھا ہے۔“ ہاں، میں اُسے دیکھ چکا تھا۔ وہ ایک سانولی رنگ کی لڑکی تھی۔ اُس کی آنکھیں بہت بڑی تھیں۔ نین نقش کی اچھی تھی۔ آپ لوگوں نے اکثر چھوٹے بچوں کو دیکھا ہوگا جو مقناطیس کے ٹکڑے کو ایک تار سے باندھتے ہیں اور اُس کو راہ چلتے زمین پر کھینچتے جاتے ہیں۔ وقفے وقفے سے بچے تار کے سر پر بندھے مقناطیس سے چمٹی ہوئی کیلیں اور اور لوہے کی دوسری چیزیں اُتار کر ایک شاپر میں ڈالتاجاتا ہے۔ وہ لڑکی بالکل اُس مقناطیس کی طرح تھی، جہاں سے گزرتی تھی بھوکی نظروں کو اپنی جانب کھینچتی رہتی تھی۔ اُس کو احساس تھا کہ وہ کیا حشر برپا کرتی جا رہی ہے اور وہ ایک فاخرانہ انداز سے ٹھوڑی اُٹھا کر اور لوگوں پر حقارت کی نظریں ڈال کر چلتی رہتی۔ مَیں نے اپنے بے وقوف دوست کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ ایک بہت بڑے فریب کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ لڑکی محبت کرنے والی نہیں، وہ سوداگر ہے۔ وہ جانتی ہے کہ یہ جسم کی دل کشی چند دنوں کی مہمان ہے۔ وہ اپنے مزدور شوہر کو بھی دھوکا دے رہی ہے اور تم کو بھی۔ ایسی عورت ایک جگہ ٹک کر رہنے والی نہیں۔ اپنی حماقت سے باز آؤ، ورنہ ساری زندگی پچھتاؤگے۔ مگر وہ تو بالکل سحر زدہ ہوگیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو کوہِ قاف کا شہزادہ سمجھ بیٹھا تھا اور اس پری کو اُفق کے اُس پار نادیدہ جزیروں میں لے جانا چاہتا تھا۔
جب ساری دلائل پر وہ قائل نہ ہوا، تو مَیں نے اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اُس نے شراب نوشی کا سہارا لیا اور ساتھ ہی اُس لڑکی کو یقین دلاتا رہا کہ جب وہ اپنے شوہر سے چھٹکارا پائے گی۔ وہ اس سے شادی کرلے گا۔ وقت گزرتا رہا اور اُس کا جنون بھی روز بروز بڑھتا رہا۔ ساتھ ہی اُس کی مے نوشی بھی بڑھنے لگی۔ وہ اپنے گھر اور بچوں سے دور ہوتا گیا۔ مَیں اُس کی یہ حالت دیکھ کر کڑھتا رہتا مگر کچھ بھی نہ کرسکا۔
ایک شام ہم دونوں شہر کے مضافات میں ایک ہوٹل کے لان میں بیٹھے تھے۔ اُسے ہلکا ہلکا نشہ چڑھنے لگا تھا۔ اتنے میں بارش ہونے لگی۔ ہم نے بیرے کو آواز دے کر بار روم جانے کے لیے کہا۔ میرا دوست آگے جارہا تھا اور مَیں ایک دو قدم پیچھے۔ میں نے دائیں طرف بنے ایک کمرے کا دروازہ کھلتے دیکھا، ویٹر کچھ برتن پکڑے باہر آرہا تھا۔ میری نظر کھلے دروازے سے اندر گئی اور میں ٹھٹک کر رہ گیا۔ سامنے وہی لڑکی ایک بیڈ پر بیٹھی تھی اور قریب ایک کرسی پرشہر کا ایک بڑا بزنس مین تھا۔ مَیں نے اپنے دوست کوکچھ نہیں بتایا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا۔ اس دوران میں میرے دوست نے اپنی وفاشعار بیوی کو ایک "Fixture” ہی کی طرح برتا۔ ایک برتن، واشنگ مشین، پریشر ککر یا اس قسم کی اور کوئی بے جان چیز، وہ بے چاری ایک دن ہمارے ہاں بھی آئی، اور میری بیوی کو اُس کی لاپروائی اور بے اعتنائی کے بارے میں بتایا۔ میری بیوی نے اُس کو بتایا کہ صبرو شکر کا دامن تھام لو، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور آخر کار ایک دن وہ بم شل "Bomb Shell” پھٹ گیا۔ وہ لڑکی ایک شخص کے ساتھ فلم کا آخری شو دیکھتے ہوئے پکڑی گئی۔ ہمارے پڑوس ہی میں رہنے والے مجسٹریٹ نے اُس کو خاوند سے طلاق دلوا کر اُس دوسرے شخص کے ساتھ زبردستی شادی کروا دی۔ میرے دوست کے لیے یہ خبر واقعی حیران کن اور غیر متوقع تھی۔ ایک آدھ دن مدہوشی میں گزار کر وہ خود بہ خود ٹھیک ہوگیا اور پھر تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود اپنی حماقتیں یاد کرکے قہقہے لگاتا۔ تو پیارے قارئین! جن کی بیویاں زندہ ہیں اُن کو حاصلِ حیات سمجھ کر اُن کی قدر کریں۔ اُن کو احترام اورپیار سے رکھیں اور اُن کو فرنیچر کا ٹکڑا یا پرانابرتن سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ ورنہ آپ بھی ہماری طرح کفِ افسوس ملتے رہیں گے۔
تسکین جاں
