فضل مولا ذاھد
”خیریت جانبین نیک نصیب باد۔“ اپنی وادئی سوات کے صدر مقام سیدو شریف کی مشرقی سرحدکی رکھوالی پر مامورمضافاتی بستی کوکارئی میں یوں اذان ہوتی ہے اوریوں جاگ جایا کرتے ہیں، گویا اِس بابت کسی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہوئے ہوں ہم نے اور مولوی نے۔ مولوی کا معاملہ تو خیر خدائے ذوالجلال بہترجانے یا وہ خود جانیں، ہم تو اپنے تئیں بڑے گہرے نیند سے بیدار ہوئے ہیں، اتنے گہرے کہ جاگنے کے بعددماغ کاسوفٹ وئیروقت کی پہچان سے عاجز ہو گیاہے کہ دن ہے یا رات، فجر ہے یا ظہر ہے، عصر، مغرب یاکہ عشا؟ وقت اور دماغ کا اَٹوٹ رشتہ ٹوٹ بہ ٹوٹ کا شکار ہو گیا ہے، واقعی۔ ایک ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے، خدا خیر کرے۔ یہ اُلجھن فی الفور سلجھن میں بدلتی ہے جب اذان اذان میں ”نماز نیند سے بہتر ہے“ کی صدا کانوں میں رس گھولتی ہے، جو شہادت دیتی ہے کہ رات کی تاریکی میں زندگی کی روشنی سرائیت کر نے کو ہے، اور ایک پُر نورفجرروا ہونے کو ہے۔
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے، اے دلِ بے تاب ٹھہر
آس پاس زیتون کے درختوں میں مقیم پرندے چڑیاں اورمینائیں صبح ہونے پر اُس ہستی کی خدمت میں حمد وثنا کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں، جو یہ عمل کرنے پر قادر ہے۔ بندہ فکر میں پڑ جاتاہے ذکر شدہ مخلوق کاذکر و اذکار سنیں یا خود اِس کی شروعات کریں، یا بیک وقت دونوں کارروائیوں کا ڈول ڈالیں؟ اِن میناؤں کو ایک زمانے سے یہ ایڈکشن بھی ہو گئی ہے کہ جیسے ہی ذکر و اذکارکے فریضے سے فراغت پاتی ہیں،ویسے ہی ہمارے ”کاشانہئ کشوری“ میں باجماعت لینڈنگ فرماتی ہیں۔ دروازہ کھلا پاکر دھڑلے سے ہمارے ”کیوبیکل روم“ میں آ گھستی ہیں۔ ہماری چارپائی پر چڑھتی ہیں اور اُس کمبل کے اوپر گھومتی گھامتی ہیں، چہل قدمی کرتی ہیں جس کے اندر ہم فولڈ ہوئے پڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تیز چونچ اور نوک دار پنجوں سے اُسی کمبل کو مروڑتی ہیں۔ اٹھکیلیاں سوجھتی ہیں اورموج مستی کرتی ہیں۔ ہم کوئی ارادی یاغیر ارادی حرکت کرتے ہیں، تو یہ مخلوق اُڑ کر فرش پر جا بیٹھتی ہے۔ اپنے سر کو زور زورسے سینے سے مار کر ہمارے خلاف باقاعدہ احتجاج کے نعرے بلندکرتی ہیں۔ یہ ان کی شرارت کا وکرا انداز ہے، لفظوں میں جس کا اظہار قطعی ناقابلِ بیان ہے۔ یہ تب سکون کا سانس لیتی ہیں جب ہم اُٹھ کر عارضی طورپر کمرے سے ہجرت کرتے ہیں۔ اما بعدوہ باورچی خانے کو اپنا مقبوضہ کشمیر بناتی ہیں اور جب تک اُن کی عمل داری وہاں چلتی ہے، یہ کسی اور پرندے کو اپنی ہمسائیگی کا حق تک نہیں دیتیں۔ اِن میناؤں کی شریف شکلوں پر نہ جائیں، اِن کی بد معاشی پر جائیں۔ مجال ہے کسی اور قبیلے کا پرندہ آس پاس گزرنے کی کوتاہی کرے، اور یہ اُسے لقمہئ اجل بنانے کی ”تابیا“ نہ کریں یا کم سے کم اُن کو یہ وارننگ نہ دیں۔
میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے؟
اِس پر طرہ یہ کہ منظور کی ماں اِن کی ایسی آؤ بھگت کریں، ایسی کہ ناشتے میں اِن کوپراٹھے کھلائیں، کبھی چاول اور چکن جل فریزی“ سے خاطرتواضع کریں۔ کہیں مجبوری میں سادہ روٹی ”سرو“ کی جائے، پھر اُن کے شور شرابے کی کیفیات دیکھنا اور پرویز خٹک فیم احتجاجی ڈانس کے مظاہرے دیکھنا۔ زندگی کے سازوں میں پرندوں کی یہ توتکار، یہ چہچہاہٹ، یہ چہل پہل، یہ ویلیو ایڈیشن بڑا ”سازِندہ“ اور خماری نہیں۔ یہ توایک طرف،ہمارے خورو نوش کے نظام میں بھی اِن کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا حضرتِ انسان خود۔
بات ہو رہی تھی صبح صادق کے روا ہونے کی، میناؤں کی اداؤں نے بہکا کر سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔ تو بات ہو رہی تھی اذان کی اور بعد کی صورت حال کی، جس کے بعد وقفے وقفے سے اشرف المخلوقات کا شور شرابہ شروع ہوجاتا ہے۔ اپنے دماغ کا ”پی وَن کمپیوٹر“ کام پر آ جاتا ہے، تویکا یک یاد دلاتا ہے کہ آج تو بریکوٹ کے ایک ساتھی کے ساتھ کہیں دور نکلنے کا، گھومنے پھرنے کا، بھٹکنے، پھدکنے اور لوفری کا شیڈول طے ہے۔ یہ سفر اور چکرکے چسکے منھ کو پڑ جائیں، تو کسی کے مصداق وہ لوگ ”کھڑاؤں اُتار کر چین سے نہیں سوتے۔“ فوری سیدھے ہوتے ہیں، بھاگم بھاگ تیار ہونے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ ریفریش ہونا، کپڑے بدلنا، اپنے ہی کمانڈ میں نماز ادا کرنے کی رسمی ڈسپلے کرنا، ناشتہ تیار ہونے تک کے فالتو اوقات میں خدا کو یاد کرنے کی ”ڈرامہ بازی“ کرنا، فی الفور ناشتے کا فریضہ سرانجام دینا، قدِآدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر کافی دیر تک اپنی مانگ سنوارنا، زادِ راہ بھی اُٹھانا، اپنے در کی دہلیز سے گاڑی کی سیٹ پر تشریف فرما ہونا، گاڑی کاسلف مارنا اور آگے پیش قدمی کرنا، یہ تمام اعمال تو پورے دو گھنٹوں کا کھیل ہیں، بابا!
گھڑی کی سرگرم سوئی، کاہل سوئیوں کو کھینچ کھینچ کر سات کا باجا بجانے کے لیے ”کیٹ واک“ کر رہی ہے۔ دِن ہے ہفتہ مبارک کا، اور اللہ سب کا بھلا کرے ماہِ اکتوبردو ہزار اُنیس کی تاریخ ہے بارہ۔ محلے کی پُلِ صراط والی گلی سے گاڑی سڑک کی طرف نکالتے ہیں۔ سوات کے مین شہر مینگورہ کی طرف رُخ کیے آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ گاڑی بھی گرم ہو تی جائے گی، اور اپنی بستی کی صبح کا تازہ بہ تازہ احوال بھی سناتے جائیں گے۔ آخر یہ بستی بھی تو پڑی ہے راہوں میں۔ جہاں پانچ کلومیٹر سڑک کی بربادی کا یہ عالم، پہاڑوں کی کھدائی اور درختوں کی کھٹائی کا یہ عالم، کمیشن و بھتا خوری کا یہ عالم، وزیروں مشیروں کے بار بار افتتاحوں اور بے سرو پا جھوٹے دعوؤں کا یہ عالم اور اُن کی تصویری جھلکیاں فیس بک پر شیئر کرنے کا یہ عالم، پچھلے پانچ چھے سالوں سے بڑی پارسائی کے ساتھ جاری ہے، لیکن یہ سڑک ہے جس کی تکمیل کا معجزہ رونما ہونے والا نہیں۔
بہ صد احترام، معاف فرمائیں جی، ویسے یہ حکمران جس طرح بے وقوف نوجوانوں کا ”جھوٹ بولو، ڈٹ کے بولو، بے شرمی کا ہر حد عبور کرکے بولو، اور لوگوں کو صلواتیں سنا کے بولو“ کی جو تربیت دے رہے ہیں، بخدا بڑا ظلم نہیں کر رہے ہیں!
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کر یں
ہم اگر عرض کریں گے، تو شکایت ہوگی
(جاری ہے)