ایڈووکیٹ نصیر اللہ
اس ملک میں کس کس مسئلے کا تذکرہ کیا جائے؟ یہاں پر گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مسائل ہیں جو ہر وقت ریاست کے ذمہ دار اہلکاروں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہونے کے مترادف ہیں۔ کسی بھی طور ریاست اس حقیقت سے راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ لیڈر شپ، سول و ملٹری بیوروکریسی ہی اس ملک کے وہ اصل کرتا دھرتا ہیں جن کے مفادات اس ملک کے وسائل اور غریب عوام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن مذکورہ طاقتور اشرافیہ کسی طور بھی نہیں چاہتی کہ عوام کی حالت میں تبدیلی آئے۔ ان کا مطمحِ نظر صرف اور صرف دولت اکٹھا کرنا، عوام کا استحصال کرکے وسائل، کرسی اور اقتدار کے ساتھ چمٹ کر رہنا ہے۔
درحقیقت ہمارے حکمران عوام کو مزید بے دست و بے پا کرکے بے عزت کرنا چاہتے ہیں اور اپنی فرعونیت کی وجہ سے ماتحت افسران کو حراساں اور زد و کوب کرنا چاہتے ہیں۔ اس اشرافیہ کے پاس بے ہنگم بیورو کریسی، بے بنیاد نظریات، من گھڑت جمہوری اقدار، مذہب اور وطن پرستی کا ہتھیار موجود ہے۔ جس کی مدد سے ہر وقت عوام کو زیر کیا جاتا ہے اور ان کو گمراہ کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیا جاتا۔ دھرنا سیاست اور جلسے، جلوس ان کے ایما اور سازش پر ہوتے رہتے ہیں۔ مطلوبہ نتائج حاصل کرکے اصل ایشوز کو پسِ پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ عوام ہیں کہ ان کو تاحال شعور نہیں ملا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے استقامت کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ اشرافیہ، عوام اور اپنے ماتحتوں کو بلاوجہ پریشان کرتی ہے۔ اپنے ہونے کا مسلسل جواز فراہم کرتی رہتی ہے۔ اس بدمعاش اشرافیہ کے نقصان پہنچانے والے کرپٹ امور کا عوام کو پتا چل چکا ہے۔ عوام آگاہ ہوئے ہیں اور مزید آگاہ ہو رہے ہیں کہ کون ہمارے مسائل کو حل کرنے والا ہے اور کون ہے جو ناجائز طور پر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے؟ بلکہ عوام کو اس کے فریب، دغا بازی، سیاسی دھوکے بازی کا علم ہوچکا ہے۔ اس حکمران اشرافیہ کا مقصد صرف طاقت اور دولت کا حصول ہے۔ بس عوامی لیڈر شپ کا فقدان ہے جس کی وجہ سے عوام اپنے اصل حقوق سے بے نیاز ہوکر روزی روٹی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کے ساتھ اس اشرافیہ کا کوئی سروکار نہیں۔ اب واضح ہونے لگا ہے کہ ان کا گھناؤنا چہرہ کتنے پردوں میں چھپایا گیا ہے۔ ان میں انسانیت ہے اور نہ یہ کسی مذہب کی پیروکار ہی ہیں۔ دراصل یہ جمہوریت سے باخبر ہیں اور نہ سائنسی نقطہ نظر سے ہی واقف ہیں۔ دوغلی سیاست کی علمبردار اشرافیہ کا گھناؤنا چہرہ جو بھی لوگوں کے سامنے لے آنے کی کوشش کرتا ہے، تو اشرافیہ کا پورا بٹالین اس کا دشمن ہو جاتا ہے۔ پھر اس پر غدارِ وطن کے القابات لگاکر اس کی زندگی جہنم بنا دی جاتی ہے۔عوام کی نظروں میں اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی اس کو غدارِ وطن کہہ کر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، کبھی اس کو خفیہ عقوبت خانوں میں بند کرکے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ البتہ ایسی آوازوں کو وقتی طور پر تو چپ کرایا جاسکتا ہے، لیکن دیر تک اسے کسی طور پر بھی چپ نہیں کرایا جاسکتا۔ کیوں کہ یہ فطرت کا قانون ہے اورفطرت اپنے تغیرات و مظاہرے سارے کائنات میں دکھاتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے انسانی معاشرے، انسانی ذہن و عقل اور اقوام و ممالک کی سطح پر بھی تغیرات لمحہ بہ لمحہ وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ تغیر ایک ناگزیر عمل ہے، انسانی معاشروں میں جعلی اور خود ساختہ طورپر بند باندھ کر اس کی رفتار کو کم تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ہرگز یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کو سرے سے ختم کیا جائے۔
مادہ پرست اشرافیہ دلیل کو نہیں مانتی۔ عقل کو نہیں مانتی۔ کسی قانونی و سائنسی ضابطے کو نہیں مانتی۔ یہ دانشوروں کو نہیں مانتی۔ فلسفہ کو نہیں مانتی۔ یہ کسی کتاب کو بھی نہیں مانتی۔ یہ قانون کو اپنی لونڈی بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ عدالت کو اس نے مذاق بنایا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کا تقدس اس کے سامنے ہیچ ہے۔ اس کو کسی چیز کی پروا نہیں۔ یہ بے باک اور بدمست ہو کر عوام کو روندنا چاہتی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دولت، طاقت اور وسائل کا حصول۔ کسی طور پر طاقت کے نشے میں مست ہو کر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ بیوررو کریسی اورادارے اس کے بغیر نہیں چلائے جاسکتے۔ یہ زمینی خدا بن بیٹھے ہیں۔ یہ اپنی جوشیلی تقریروں کے ذریعے عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے۔ اس کو پتا ہوتا ہے کہ صرف جذباتی باتوں سے عوام گمراہ ہوا کرتے ہیں۔یہ حکمران عوام کو صرف نان ایشوز میں الجھا کر اصل مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ عوام کے ایشوز روزگار، معیشت، تعلیم، صحت اور ان کے مال و جان کا تحفظ ہیں، مگر ریاستی حکمران سول و ملٹری بیوروکریسی اور مقتدر طبقات اس میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ان کو احساس ہی نہیں غربت کی زندگی کس طرح کانٹوں پہ چل کر گزاری جاتی ہے۔ یہ بے خبر ہیں کہ غریب کو بھی بھوک لگتی ہے، ان کی بھی کچھ خواہشات اور ارمان ہوتے ہیں۔ انہیں بھی تعلیم اور صحت کی ضرورت پڑتی ہے۔ افسوس، ذلت و رسوائی عوام کا مقدر بنادی گئی ہے۔
قارئین، یہ ایسے حالات ہیں کہ غربت کو طعنہ بناکر رکھ دیا گیا۔ غربت گالی نہیں۔ اگر کسی کے ساتھ آج مال و دولت ہے، تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کل کلاں وہ غریب تھا۔اس کے ساتھ کچھ نہیں تھا۔ وہ فلاں پست شعبے سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کو عقل نہیں کہ کوئی شعبہ پست یا بڑا نہیں ہوتا۔ سادہ سی بات ہے کہ محنت کا صلہ ملتا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔
دراصل سیاست اور طاقت ایک طبقہ کا دوسرے پر حکومت کرنے اور دولت کے حصول کا جھگڑا ہے۔ پارلیمنٹ اور عدالت میں بھی دولت اور وسائل کا جھگڑا ہوتا ہے۔ بھوک اور افلاس کا فارغ البالی کے ساتھ آمنا سامنا ہے۔ ساری دنیا میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ جمہوری اقدار کو پسِ پشت ڈال کر مادہ پرست فلسفہ کو لاگو کیا گیا ہے۔ جمہوریت کو گالی بنا دیا گیا ہے۔ پہلے جاگیرداری کو مغرب سے لایا گیا اور بعد میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اس کے پلو باندھ دیا گیا۔ یہ مغرب سے درآمد شدہ نظریات ہیں،مگر تاحال ان کی روح کے مطابق اس پر بھی عمل نہیں ہوسکا ہے۔
سرمایہ داری درآمد شدہ جمہوری نظام کی وجہ سے رشتوں کے تقدس، باپ اور بیٹے کے درمیان عزت اور وقار کا خیال ذہن سے نکال دیا گیا۔ حیا اور شرم نام کی چیز اپنا وجود کھو چکی ہے۔ اس طرح بادشاہت بھی جمہوری قدر ہے۔ اس میں وزرا ہوتے ہیں اور درباری ہوتے ہیں۔ درحقیقت میں کہنا چاہتا ہوں کہ عوام کی حکومت ناپید ہے۔ اس ملک میں اشرافیہ اور خواص کی حکومت ہے۔ دراصل جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے، لیکن اس کے برعکس یہاں جمہوریت، شرفا اور خواص کے دفاع اور تحفظ کے لیے پیوند کاری کا جمہوری نظام بنا دیا گیا ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟ میری نظر میں دولت کی منصفانہ تقسیم اور طبقات کو ختم کرکے بڑی آبادی کو مین سٹریم سیاست میں لائے بغیریعنی عوام کو اقتدار میں شامل کیے بغیر استحصال جاری رہے گی۔ اس لیے عوام کو سیاسی اشرافیہ سے اپنا حق چھیننا ہوگا۔ انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ اپنے لیے لیڈر شپ کو معلوم کرکے سامنے لانا ہوگا۔
ورنہ تاریکی اور ظلم مزید بڑھتا جائے گا اور غریب عوام کو سانس لینے کی بھی آزادی نہیں ملے گی۔
مسائل کا انبار
