قارئین کرام! عجیب سی صورتحال ہے کہ پچھلے سال سوات میں ٹیکس کے خلاف ایک ہنگامہ بر پا ہوا تھا۔ تمام سیاسی پارٹیوں، دوکانداروں، بازار کے نمائندوں، ہوٹل برادریوں غرض زندگی کے ہر مکتبۂ فکر، صحت اور تعلیم کے محکموں نے سوات میں ٹیکس کے نفاذ کے خلاف اِکا کرکے ایک بھرپور مہم چلائی تھی اور مرکزی حکومت کو مجبور کیا تھا کہ وہ ٹیکس کے نفاذ کے قانون کو واپس لے۔ یہ بھی ایک نرالا ڈراما ہوا تھا کہ ٹیکس کے نفاذ کے لیے صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے۔ گورنر صاحب اور وزیراعلیٰ صاحب ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے تھے اور پھر واپس لینے کے لیے سہرا بھی دونوں طاقتیں اپنے اپنے سر سجاناچاہتی تھیں۔ امیر مقام صاحب اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک صاحب میں ایک دوسرے سے یہ کریڈیٹ لینے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ بیانات پر بیانات داغے جا رہے تھے، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ سوئی گیس کے بلوں میں باقاعدہ ایک تناسب سے جنرل سیلزٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ منگورہ شہر کے بلوں میں یہ ’’جی ایس ٹی‘‘ نہیں لگایا گیا ہے، جب کہ منگلور اور آس پاس کے مضافات میں جو سوئی ناردن گیس کی طرف سے نئے کنکشن دیے گئے ہیں، اُن بلوں میں باقاعدہ ’’جی ایس ٹی‘‘ چارج کیا جا رہا ہے۔ تو کیا نیا کنکشن لینا جرم ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر سوات کو ٹیکس فری زون قرار دیا گیا ہے اور اس حکم کو باقاعدہ ایک قانون شکل دی جاچکی ہے، تو پھر قانون کی خلاف ورزی کیوں کی جا رہی ہے؟ اور مزید یہ کہ اس لاقانونیت اور ظلم کا الزام کس پر لگایا جائے اور کیسے ذمے دار ٹھہرایا جائے؟
مینگورہ اور منگلور کا سوئی نادرن گیس دفتر الگ نہیں بلکہ سوات میں گیس کا دفتر تو ایک ہی ہے۔ اب یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ایک ہی دفتر سے مینگورہ شہر کے بلوں میں ’’جی ایس ٹی‘‘ چار ج نہیں ہو رہا جب کہ منگلور جو مینگورہ سے صرف چھے کلو میٹر کی دوری پر ہے، اس کے عوام کے بلوں میں مذکورہ چارجز لگائے جا رہے ہیں۔
سوات کا مقامی دفتر یہ سارا الزام مردان کے دفتر پر لگارہا ہے، لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف اپنی جان چھڑانے والی بات یا بہانہ ہے۔ منگلور میں نئے کنکشن لگانے والوں کے بلوں کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف تناسب سے یہ ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ ایک بل جو چار ہزار روپے ہے، اس پر چھے سو روپے ’’جی ایس ٹی‘‘ چارج کیا گیا ہے۔ اس طرح 1281 روپے بل پر 121 روپے چارج لگایا گیا ہے۔ گیس کا کنکشن لینا اور استعمال کرنا عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس سے اس علاقہ میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ سوختنی لکڑیاں جلانے میں کمی آئے گی۔ یوں سوات کے خوبصورت جنگلات کو تباہی سے بھی بچایا جا سکے گا۔ نتیجتاًماحول صحت افزا بن جائے گا۔ لہٰذا درخواست یہ ہے کہ عوام کی اس بنیادی ضرورت اور سہولت کو اتنا مہنگا نہ کیا جائے کہ عام آدمی اس سے محروم رہ جائے۔ اس حوالے سے منگلور کے عوام اُن تمام سیاسی و غیر سیاسی پارٹیوں اور اداروں کے مشکور ہیں جنہوں نے اس کنکشن میں مدد اور تعاون کرکے اس علاقے کے لوگوں کو یہ سہولت فراہم کی ہے، لیکن اب زیادہ بل بناکر اور اس میں ’’جی ایس ٹی‘‘ جیسے ظالمانہ چارجز لگا کر عوام کا استحصال نہ کیا جائے۔ اب یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ ہر چھوٹے بڑے مطالبے کے لیے جلوس نکالے جائیں، مظاہرے کیے جائیں، سڑک اور راستے بند کیے جائیں۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ ایسی نوبت آئے حکام بالا اور متعلقہ محکموں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد اس معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں اور اسے حل کریں۔
میں اپنی اس تحریر کے ذریعے سوئی ناردن گیس سوات کے دفتر کے عملہ کے ساتھ ساتھ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صاحب سے اس مسئلے میں خصوصی دلچسپی لینے کی درخواست کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اس حوالہ سے ہماری سُنی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔