روح الامین نایابؔ
قارئین کرام! اس ملک میں ہر کوئی رو رہا ہے، فریاد کررہا ہے، دہائی دے رہا ہے، مگر مجال ہے کہ کوئی شنوائی ہو، حکام بالا کوئی توجہ دے؟ جب تک معاملہ حد سے تجاوز نہ کرجائے، پانی سر سے اونچا نہ ہوجائے، کشت و خون کا بازار گرم نہ ہو، دنگے فساد نہ ہوں، دھرنے اور احتجاج نہ ہوں، تب تک کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
2008 اور 2009ء میں جب پورے ملاکنڈ ڈویژن میں عام طور پر اور ضلع سوات میں خاص طور پر ایک پُرآشوب دور تھا، ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی، بارود کی بوپھیلی ہوئی تھی، انسانی خون ارزاں ہوچکا تھا، انسانی لاشیں چوکوں اور کھمبوں پر لٹک رہی تھیں، انسانیت اور تہذیب شرمسار ہوکر اپنے ہی انسانوں سے منھ چھپارہی تھی، نظم و نسق کا نام و نشان نہیں تھا،ریگولر سیکورٹی فورس کو اپنی زندگیوں کو بچانے کی فکر لگی ہوئی تھی، تو ایسے کڑے اور خطرناک وقت میں ’’سپیشل پولیس فورس‘‘ کے نام پر جوانوں کی بھرتی کے لیے اشتہار دیے گئے۔ ’’کنٹریکٹ بیس‘‘ پر صرف دس ہزار روپے ماہوار تنخواہ پر بے روزگار، مجبور اور غریب نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا۔ ان بہادر نوجوانوں نے اپنی ڈیوٹی اور فرائض ایمان داری سے سرانجام دیے اور ابھی تک سر ہتھیلی پر رکھ کر بلا کسی خوف و خطر کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس دوران میں اس فورس کے کئی نوجوان بے دردی سے شہید کیے گئے۔ ماؤں، بہنوں، بچوں اور ورثا کو ٹکڑے ٹکڑے بوریوں میں بند لاشیں موصول ہوئیں۔ اسلام اور مسلمانی کے نام پر ان پر کوئی رحم نہیں کیا گیا۔ ان کا سرخ لہو صرف اس وجہ سے بے دریغ بہایا گیا، کیوں کہ اُن کے جسم پر حکومت کی سرکاری ملیشا کپڑوں کی پہچان تھی۔ سرکاری پٹی اور نمبر تھے۔ لیکن افسوس موجودہ تحریک انصاف حکومت نے بار بار احتجاجوں کے بعد اُن کی تنخواہ دس ہزار سے بڑھا کر صرف پندرہ ہزار ماہوار کر دی، لیکن ان بہادر نوجوانوں کو کنٹریکٹ کی بجائے ریگولر فورس کی حیثیت اور مراعات دینے کو تیار نہیں۔
ایک لمبی عدالتی جدوجہد اور تگ ودو کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس یحییٰ اور جسٹس اعجاز انور صاحبان نے سپیشل فورس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اپنے فیصلے میں صاف اور واضح طور پر لکھا کہ ان نوجوانوں کو باقاعدہ دوسری سیکورٹی فورسز کی طرح ریگولرائز کیا جائے۔ ریگولرائز تمام فورسز کی مراعات پنشن، فنڈ اور صحت کی سہولیات میسر کی جائیں۔ 24 اکتوبر 2009ء سے لے کر آج تک جتنے بھی بھرتی شدہ نوجوان یا افراد ہیں، انہیں تمام بقایاجات ادا کیے جائیں۔ ان کے شہدا کو مکمل شہدا پیکیج سے مستفید کیا جائے، لیکن افسوس پرویز خٹک کی صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور 21 نومبر 2017ء کو سیکورٹی فورسز کے نمائندگان کو عدالت عالیہ کی طرف سے رجسٹری نوٹس موصول ہوگیا۔
قارئین کرام! اس دردناک داستان کا ایک اور دُکھ بھرا پہلو یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر کی تجویز پر ایک نمائندہ کمیٹی تشکیل دی گئی، تاکہ اس مسئلے پر اپنی قابل عمل سفارشات مرتب کرے۔ میرہ دندئی کی ایک سرکردہ شخصیت محمد شاہ خان صاحب اس کمیٹی کے چیئرمین مقرر کیے گئے۔ اس کمیٹی نے اپنی سفارشات میں سپیشل سیکورٹی فورس کی ریگولرائزیشن کے حق میں فیصلہ دے دیا اور فائل پختونخوا کے انسپکٹر جنرل کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آئی جی صاحب نے مختلف اوقات اور مختلف مقامات پر فورس کو ریگولرائز کرنے کا اعلان بھی کیا، لیکن تاحال کوئی عمل درآمد نہ ہوا۔ اس طرح وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی پختونخوا کے مختلف مقامات پر اپنے عوامی جلسوں میں اس بارے میں مثبت اعلانات کرچکے ہیں، لیکن منافقت کی حد یہ ہے کہ عملی طور پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رہے ہیں۔ کیا وزیراعلیٰ کو خوفِ خدا نہیں ہے؟ ان غریب لاچار نوجوانوں کی قربانیوں کا کوئی احساس نہیں؟ کیا ان جوانوں کے لہو کی کوئی حیثیت، عزت اور قیمت نہیں؟ کیا وہ رائیگاں بہایا گیا؟ سوال یہ ہے کہ ماہوار پندرہ ہزار روپے کی موجودہ مہنگائی کے دور میں کیا قدر ہے؟ کیا خود پرویز خٹک صاحب بحیثیت ایک انسان کے پندرہ ہزار پر گزارہ کرسکتا ہے؟ اگر نہیں، تو یہ بھی انسان ہیں کوئی کیڑے مکوڑے یا سانپ بچھو تو نہیں ہیں۔ میں حیران اس بات پر ہوں کہ انصاف کے نام پر سیاست کرنے والے اور تبدیلی کے نام پر حکومت کرنے والے وزیراعلیٰ پرویز خٹک صاحب عدالت کا فیصلہ مانتے ہیں اور نہ اپنے سپیکر کی بنائی ہوئی کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرتے ہیں، تو آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ اتنے ظلم، ہٹ دھرمی اور زیادتی کا مطلب کیا ہے؟ میں صوبائی حکومت، اس کی انتظامیہ اور خاص کر وزیرِ اعلیٰ صاحب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلا تاخیر ان نوجوانوں کی حالتِ زار پر رحم کرے۔ ان کے آئینی اور قانونی مطالبات منظور کرکے اس طویل درد ناک داستان کا خاتمہ بالخیر کریں۔ اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت کے آخری ایام میں کچھ تو عوام الناس کے حق میں نیکی کا کام کریں۔
میں آخر میں اس تحریک اور جدوجہد کے روحِ رواح رحمت علی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے انتھک جدوجہد کرکے، محنت کرکے، عدالتی مشکل اور پیچیدہ قانونی تسلسل کو جاری رکھ کر اسی مسئلے کو زندہ رکھا ہے۔ اسے دوام بخشا ہے۔ رحمت علی 03479387993 کی خواہش ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے حساس اور باشعور کوئی بھی دوست اپنے چینل یا اخبار پر اس ایشو کو مزید اجاگر کرنے اور اپنی فریاد کرنے کے لیے اسے موقع فراہم کرے، تو وہ شکر گزار رہیں گے۔ میں اُس کی فریاد اور خواہش کو من و عن اپنے میڈیا کے دوستوں کو پیش کررہا ہوں، مجھے اُمید ہے کہ وہ ضرور اُسے موقع فراہم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔