جان عالم خان 

  سوات، جو حسن، خوب صورتی اور سیاحت کے لیے مشہور و معروف ہے، ایک بار پھر ایک افسوس ناک حادثے کی زد میں آگیا۔
قارئین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، سیلابی ریلے نے کئی قیمتی انسانی جانیں نگل لیں، خاندان اُجاڑ دیے، خوشیاں غم میں بدل دیں، اور ایک بار پھر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آیا یہ صرف قدرتی آفت تھی، یا اس کے پیچھے انسانی غفلت، ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن کا گھناؤنا چہرہ چھپا ہوا ہے؟
چند دنوں سے سوات کا موسم معمول سے کچھ زیادہ گرم رہا، لیکن پھر وقفے وقفے سے بارشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس نے بہ ظاہر موسم کو خوش گوار تو کر دیا، مگر درپردہ ایک سانحے کی بنیاد رکھ دی۔ کل شام(سانحۂ بائی پاس سے ایک روز قبل)، جب مَیں مینگورہ بائی پاس پر دریائے سوات کے کنارے موجود تھا، تو مَیں نے دریا کے پانی میں معمولی طغیانی اور گدلاہٹ دیکھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ پانی کے رنگ اور روانی میں یہ تبدیلی اس امر کی علامت تھی کہ بالائی علاقوں میں شدید بارشیں ہوچکی ہیں اور دریا میں بہاو کسی بھی وقت شدت اختیار کر سکتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ایک حساس اور ذمے دار انتظامیہ کو فوراً متحرک ہوجانا چاہیے تھا۔ وارننگ جاری کی جاتی، متعلقہ علاقوں میں گشت بڑھایا جاتا، سیاحوں اور مقامی افراد کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کیا جاتا اور ممکنہ خطرے سے بچاو کے اقدامات شروع کر دیے جاتے…… لیکن افسوس، ہمارے ہاں سسٹم صرف سانحے کے بعد جاگتا ہے، جب سب کچھ تباہ ہو چکا ہوتا ہے۔
قارئین! اب آئیے اصل سوال کی طرف، وہ سیاح دریا کے وسط تک کیوں گئے، جہاں سے وہ پانی میں بہہ گئے؟
یہ بات سب کو جاننی چاہیے کہ یہ وہ جگہ تھی جو دریا کے کنارے سے تقریباً تین سو فٹ دور تھی۔ ہم اکثر وہاں جاتے ہیں، اس لیے ہمیں معلوم ہے کہ دریا کے کنارے ایک پختہ پشتے کی تعمیر برسوں سے جاری ہے، جو مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یہ منصوبہ ایک دکھاوا بن چکا ہے، جہاں سال میں صرف ایک مہینے کے لیے کام کیا جاتا ہے اور باقی گیارہ مہینے ٹھیکے دار، محکمے اور متعلقہ افسران آرام سے بیٹھ کر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔
جب دریا میں پانی کم ہوتا ہے اور پشتے کی تعمیر آسان ہوتی ہے، تب سب خاموش رہتے ہیں…… لیکن جوں ہی برسات کا موسم آتا ہے، دریا بپھرتا ہے اور پانی زور پکڑتا ہے، کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، مقصد حفاظت نہیں، بل کہ ایمرجنسی فنڈز کا اجرا اور اُن میں سے حصہ داری حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ پانچ سال بعد بھی مکمل نہ ہوسکا۔ کیوں کہ اگر منصوبہ مکمل ہوجائے، تو فنڈز کا بہاو بند ہو جائے گا اور کرپشن کا دروازہ بند کرنا ان کے لیے ناممکن ہے ۔
حادثے کے مقام سے کچھ فاصلے پر، تقریباً پانچ سو فٹ دور مشرق کی طرف، ریت اور بجری سے ایک عارضی بند بنایا گیا تھا، تاکہ پانی کا رُخ دوسری طرف موڑا جا سکے اور کنارے پر تعمیراتی کام جاری رکھا جاسکے۔ سیاحوں کو اس صورتِ حال کی کیا خبر تھی؟ اُن کے لیے تو وہ خشک دریا تھا، جس پر چہل قدمی کرنا بالکل محفوظ لگا۔ وہ دریا کے بیچ تک چلے گئے۔ پھر اچانک اوپر سے سیلابی پانی کا ریلا آپہنچا، جو رات سے بالائی علاقوں سے نکل چکا تھا۔ وہ عارضی بند بہہ گیا اور لمحوں میں وہ جگہ جہاں سیاح موجود تھے، تیز بہتے پانی کی لپیٹ میں آ گئی۔
یہاں پر مینگورہ کے مقامی شہریوں کا کافی رش لگا رہتا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ صبح کا وقت تھا، اگر شام کا وقت ہوتا، تو شاید سیکڑوں جانیں ضائع ہوجاتیں۔
اس موقع پر ریسکیو 1122 ٹیم کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن رہی۔ وقت پر امداد نہ پہنچ سکی اور جو ٹیم پہنچی، وہ مناسب تربیت رکھتی تھی، نہ ضروری ساز و سامان۔ یوں ایک چھوٹی سی کوتاہی ایک بڑے المیے میں بدل گئی۔ یہ تو غنیمت تھا کہ دیگر فلاحی اداروں، خصوصاً خدائی خدمت گار محمد ہلال نے بہت سے لوگوں کو بچا کر ایک زندہ مثال قائم کی۔
ہم کب تک ہر سانحے کی ذمے داری صرف قدرت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھتے رہیں گے؟ کیا وقت نہیں آیا کہ ہم اُن انسانی کوتاہیوں پر بھی نگاہ ڈالیں، جو ایک قدرتی آفت کو بڑے انسانی سانحے میں بدل دیتی ہیں؟
کرپشن، بدانتظامی، سیاسی مفادات، ناقص منصوبہ بندی اور عوامی تحفظ سے غفلت یہ سب ہمارے سسٹم کا حصہ بن چکے ہیں۔
ہمیں اب یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہر سال دریا میں آنے والی طغیانی، ہر بارش کے بعد پیدا ہونے والا خطرہ اور ہر سیلاب کے بعد بہنے والا خون، یہ سب ہماری خود ساختہ بے حسی کا نتیجہ ہے۔
اگر ادارے وقت پر حرکت میں آ جائیں، اگر منصوبے وقت پر مکمل ہوں، اگر فنڈز ایمان داری سے استعمال ہوں، اگر ریسکیو سروسز جدید آلات سے لیس ہوں، تو پھر قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
اب صرف رونے اور افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ ہم سوال کریں، احتساب کا مطالبہ کریں اور اپنی زمین، اپنے وسائل اور اپنے عوام کی حفاظت کو اولین ترجیح دیں۔ ورنہ ہر سال یہی المیہ دہرایا جاتا رہے گا اور ہم بے بسی سے تابوتوں کو کاندھا دیتے رہیں گے۔