زاہد خان

برطانیہ کے شہزادہ فلپ نے پاکستان کے شمال مغرب میں گھنے ہرے جنگلوں اور فلک بوس پہاڑوں میں چھپی سوات وادی کا پہلی بار دورہ سنہ انیس سو انسٹھ میں کیا۔ دو سال بعد جب صدر ایوب خان نےملکہ الزبتھ کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے یہ دعوت صرف اس شرط پر قبول کی کہ وہ سوات کی سیر کریں گی۔

اس وقت سوات پاکستان کی ایک ریاست تھی جس کا اپنا شاہی خاندان تھا۔ اس خاندان کے سربراہ میاں گل جہاں زیب کو ’والی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور انہوں نے ملکہ کا استقبال کیا۔ ان کی پوتی زیبو جیلانی کا کہنا تھا ’میں شاید آٹھ سال کی تھی جب ملکہ نے سوات کا دورہ کیا تھا۔ یہ ایک بہت عظیم موقع تھا۔ البتہ میرے دادا کئی بار اہم شخصیات، جیسے کے ملیشیاء کی ملکہ، کی میزبانی کرتے تھے مگر ملکہ الزبتھ کی میزبانی کرنا ہمارے لیے خاص اعزاز کی بات تھی۔ ہم سب نے اس دن اپنے بہترین کپڑے پہن رکھے تھے۔‘

ملکہ کے دورے سے پہلے ایک پیشگی ٹیم کو اس جگہ کے موزوں ہونے کا تعین کرنے کے لیے بھیجاگیا۔

زیبو گیلانی کا کہنا تھا ’میں نے اور میری کزن نے ملکہ اور ان کے شوہر کو سیدو میں پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کیا۔ انہوں نے ہم سے ہاتھ ملایا، ہمارے نام پوچھے اور ہمارے سکول کے بارے میں سوال کیا۔‘

فروری انیس سو اکسٹھ میں سوات میں سردی کی ایک شدید لہر جاری تھی، پھر بھی ہزاروں لوگ سڑک کے دونوں طرف ملکہ کی ایک جھلک دیکھنے کو کھڑے تھے۔ ان میں کالج میں پڑھنے والے ڈاکٹر سراج بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا ’ ملکہ ایک کھلی چھت والی گاڑی میں سفر کر رہی تھیں۔ یہ والی کی ذاتی گاڑیوں میں سے ایک امریکی گاڑی تھی۔ ملکہ انتہائی خوش تھیں اور ہاتھ ہلا کر عوام کے نعروں کا جواب دے رہیں تھیں۔‘

بھاری برف باری کی وجہ سے ملکہ سوات وادی کے چند علاقوں کی سیر نہیں کر سکیں۔

سوات وادی میں میں گندھارا اور بدھ مت تہذیبوں کے قدیم آثار موجود ہیں جن میں اس وقت ملکہ کو خاص دلچسپی تھی۔ ولی نے ان تمام مقامات کو محفوظ کیا ہوا تھا اور منگورہ میں ایک عجائب گھر بھی بنا رکھا تھا جس میں نایاب تاریخی فن پارے اور مجسمے رکھے تھے۔ سنہ دو ہزار سات میں طالبان کے اقتدار کے دوران اس عجائب گھر کو نقصان پہنچا تھا۔

زیبو جیلانی کا کہنا تھا کہ ملکہ ان کے دادا کے بنائے ہوئے تعلیمی، فلاحی اور عدالتی نظاموں سے بھی متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا ’میرے دادا تعلیم پر بہت زور دیتے تھے۔ انہوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے سکولوں کا ایک نیٹ ورک بنایا اور ہر گاؤں میں کلینک کھولے اور سڑکیں بنائیں۔‘ زیبو جیلانی اب ’سوات ریلیف انی شیئیٹوو‘ کے نام سے ایک فلاحی تنظیم چلاتی ہیں جس کا کام تعلیم اور صحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کے مسائل کو حل کرنا ہے۔

جب سوات کی ریاست کو ختم کیا گیا تھا، اس ریاست کے اساتذہ نے صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کو پورا کیا۔ زیبو جیلانی کہتی ہیں ’ملکہ کے دورے کا ایک مقصد برطانیہ کے ساتھ بہتر تعلقات تھا جس کی وجہ سے بعد میں کچھ لوگوں کو تربیت اور تعلیم کے لیے برطانیہ بھی بھیجا گیا۔‘

ماضی قریب میں سوات میں شدت پسندی اور طالبان تحریک کی وجہ سے منظرِ عام پر رہا ہے۔ اس لڑائی میں بہت سے سکولوں کو تباہ کر دیا گیا اور مقامی علاقوں کو بہت نقصان پہنچا۔ زیبو جیلانی ان وقتوں کو یاد کرتی ہیں جب وادی انتہائی پر امن تھی اور غیر ملکی مہمانوں کی میزبانی اور سیاحت کا مرکز تھی۔ انہوں نے سوات کو مشرق کا سوئٹزرلینڈ کہا اور جنگلات کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کی تعریف کی۔

زیبو جیلانی اس بات کو یاد کرتی ہیں کہ ملکہ کا مالاکنڈ پاس پر استقبال کیاگیا جہاں سے ایک وقت برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل اپنی جنگی رپورٹیں بھیجا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ’لوگ اس قدر کشادہ ذہنیت کے مالک اور مہمان نواز تھے کہ انہوں نے ملکہ کے آنے کے بعد اپنی بیٹیوں کے نام الزبتھ رکھنے شروع کر دیے۔‘

جن لوگوں کو ملکہ کے سوات کے دورے میں شرکت کا موقع ملا، ان کے لیے ملکہ کی ڈائیمنڈ جوبلی ضرور ان یادوں کو تازہ کر دے گی مگر وہ یہ درد ناک احساس بھی لائے گی کہ آج اس طرح کے مہمانوں کی میزبانی سوات میں کرنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ خوبصورتی اور ثقافتی تاریخ کی بجائے سوات ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔