مولانا ہارون رشید
عید کی نماز سے پہلے جو صدقہ ادا کیا جاتا ہے، اس کو صدقہئ فطر (پشتو میں ”سرسایہ“) کہا جاتا ہے۔
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضورؐ نے صدقہئ فطر کو اس لیے فرض قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے بے ہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی اور مساکین کے لیے کھانے کا باعث بنتا ہے۔ (ابوداؤد، السنن، کتاب الزکوٰۃ)
صدقہ فطر کی ادائیگی کا افضل وقت عید کی صبحِ صادق کے بعد اور نمازِ عید سے پہلے کا ہے۔ حضورؐ کا فرمان ہے کہ نماز کی طرف جانے سے پہلے زکوٰۃِ فطر ادا کرلی جائے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ)
صدقہئ فطر ادا کرنے سے حکمِ شرعی پر عمل کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ صدقہئ فطر روزوں کو کمی کوتاہی سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ صدقہئ فطر دینے سے عید کے دن ناداروں اور مفلسوں کی کفالت ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نمازِ عید سے پہلے پہلے رمضان شریف میں ادا کرنا چاہیے۔
صدقہئ فطر کے مسائل حسب ذیل ہیں:
1:۔ صدقہئ فطر ہر مسلمان پر جب کہ وہ بہ قدرِ نصاب کا مالک ہو، واجب ہے۔ (نصاب سے مراد ساڑھے باؤن تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہے۔ چاندی کی قیمت بازار سے دریافت کرلی جائے)
2:۔ جس شخص کے پاس اپنے استعمال اور ضروریات سے زائد اتنی چیزیں ہوں کہ اگر ان کی قیمت لگائی جائے، تو ساڑھے باؤن تولہ چاندی کی مقدار ہوجائے، تو یہ شخص صاحبِ نصاب کہلائے گا اور اس کی ذمہ صدقہئ فطر لازم ہے۔
3:۔ ہر شخص جو صاحبِ نصاب ہو، اس کو اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہئ فطر ادا کرنا لازم ہے اور اگر نابالغوں کا اپنا مال ہو،تو اس میں سے ادا کیا جائے۔
4:۔ جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے۔ صدقہئ فطر ان پر بھی واجب ہے، جب کہ وہ صاحبِ نصاب ہو۔
5:۔ جو بچہ عید کی رات صبحِ صادق سے پہلے پیدا ہوا، اس کا صدقہئ فطر لازم ہے اور جو صبحِ صادق کے بعد پیدا ہوا، تو لازم نہیں۔
6:۔ جو شخص عید کی رات صبحِ صادق سے پہلے مرگیا، اس کا صدقہئ فطر نہیں اور اگر صبحِ صادق کے بعد مرگیا، تو اس کا صدقہئ فطر لازم ہے۔
7:۔ عید کے دن عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقہئ فطر ادا کردینا بہتر ہے، لیکن اگر پہلے ادا نہ کیا، تو بعد میں بھی ادا کرنا جائز ہے۔ اور جب تک ادا نہیں کرے گا، اس کے ذمے واجب الادا ہے۔
8:۔ ایک آدمی کا صدقہئ فطر ایک سے زیادہ فقیروں، محتاجوں کو دینابھی جائز ہے۔ اور کئی آدمیوں کا صدقہئ فطر ایک فقیر محتاج کو بھی دینا درست ہے۔
9:۔ جو لوگ صاحبِ نصاب نہیں، ان کو صدقہئ فطر دینا درست ہے۔ اپنے حقیقی بھائی، بہن، چچا اور پھوپھی کو صدقہئ فطر دینا جائز ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو صدقہئ فطر نہیں دے سکتے۔ اسی طرح ماں باپ اولاد کو اور اولاد ماں باپ، دادا، دادی کو بھی نہیں دے سکتی۔
10:۔ صدقہئ فطر کا کسی محتاج فقیر کو مالک بنانا ضروری ہے۔ اس لیے اس کی رقم مسجد میں لگانا یا کسی اور اچھائی کے کام میں لگانا درست نہیں۔
صدقہ فطر کی مقدار:۔ اگر آپ صدقہئ فطر گندم سے دینا چاہتے ہیں، تو نصف صاع یعنی پونے دو کلو یا دو کلو (احتیاطاً) کی جو قیمت ہے، اس کے مطابق دے دیں۔ اور کھجور اور کشمش وغیرہ سے اگر دینا چاہتے ہیں، تو ایک صاع تقریباً ساڑھے تین کلو کی بازارکی جو قیمت ہے (کشمش 1350روپے، جو 180، گندم 106، کھجور 810روپے) اس کے مطابق ادا کردیں۔ صدقہئ فطر میں اصل مقدار کا اعتبار ہے اور مقدار میں علما کے مختلف اقوال ہیں۔ اس لیے ہر شہر میں کسی مستند ادارے کی طرف سے صدقہئ فطر کی متعین کی گئی رقم کے مطابق ادا کریں۔ (مذکورہ مسائل، مولانا یوسف لدھیانوی کی تصنیف شدہ کتاب ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ سے اخذ شدہ ہیں)