شائرین اسلم

ڈھلتے سورج کی روشنی میں برف کی سفید چادر اوڑھے پہاڑوں کے بیچ رات بسر کرنا اور ملکی وے دیکھنا، کبھی برف باری اور کبھی بارش کو نظروں میں قید اور کیمرے میں محفوظ کرتے ہوئے دل اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتا تھا، ہمارا اپنا پاکستان قدرتی حسن سے اس قدر مالا مال ہے، وہ سب ایک خواب محسوس ہو رہا تھا سوات جاتے ہوئے راستے میں آنے والے دلفریب نظارے، دریائے سوات کی دلکشی اور بل کھاتی راہ داریاں ہم سب کو حیران کیے دے رہی تھیں اور یہ سوچ سوچ کر افسوس ہو رہا تھا کہ حکومت زرہ برابر توجہ بھی ٹورازم کی طرف دے تو ہم با آسانی قرض کے بوجھ سے نجات حاصل کرکے عوام کی فلاح و بہبود کے کام کر سکتے ہیں۔

ہمارے اشرافیہ چھٹیاں گزارنے بیرون ملک جاتے ہیں لیکن اپنے ملک کے حسن دلکش مناظر سے ناواقف ہیں۔

`سندھ اور پنجاب کی سیر کے بعد میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفر پر روانہ ہوئی تو ہماری منزل سوات تھی، ہرے بھرے علاقوں سے گزرتی موٹر وے کے ذریعے لاہور سےاسلام آباد پہنچے اور آگے کا سفر بھی زمینی راستے سے طے کرنے کا فیصلہ کیا، ہماری سوچ سے زیادہ حسین راستے کے دوران جو کچھ میری آنکھوں نے دیکھا وہ شاید لفظوں میں بیان بھی نہ کرپاؤں۔

پرسکون فضا اور سیدھی سادھی زندگی، ہرطرف پھیلی بھینی بھینی خوشبو، آلودگی سے پاک ماحول، نہ شور، نہ زندگی میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی دھن اور وہ سب کچھ جس کا بڑے شہروں میں رہنے والے شاید تصور بھی نہ کر سکیں۔

سوات پہنچنے پر ہمارا استقبال منفی 4درجہ حرارت نے کیا، لیکن خون جما دینے والی سردی ہمیں اس خوبصورت شہرکے سحر میں جکڑے رہی اور ہمارے جذبے کو سرد نہ کرسکی۔

ایک چیز جوسب نے محسوس کی وہ امن و امان کی صورت حال کی بحالی کے ساتھ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی ان علاقوں میں موجودگی تھی، کچھ لوگوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ مالم جبہ کا خوب صورت اسکی ریزورٹ ان کو وہاں کھینچ کر لایا ہے ۔

ہم نے بھی مالم جبہ کا رخ کیا اور اونچے نیچے دشوار گزار برفیلے رستوں پرروانہ ہو گئے، اگر پیدل سفر کیا جائے تومالم جبہ اسکی ریزورٹ تک پہنچنے میں ڈھائی سے تین گھنٹے لگ جاتے ہیں، برف سے ڈھکے راستے اور اس پر برفانی ہوائیں بھی سیاحوں کے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکیں اور جہاں گاڑیاں رک جاتیں وہاں سے وہ پیدل سفر شروع کر دیتے، ارد گرد کا منظر اتنا حسین تھا کہ سیاح پیدل چلنے اور سرد موسم کی سختی کو بھول گئے، بچے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا خواتین سب اسکینگ کرنے کیلئے ایکسائیٹڈ نظر آرہے تھے، مقامی افراد ہر جگہ مدد کرتے نظر آئے، سلوپ کا معیار دیکھ کر انداز ہوا کہ ونٹر اسپورٹس کے لیے مالم جبہ عالمی معیار کا حامل ہے۔

مقامی ٹورآپریٹرزسے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ گرمیوں کی تعطیلات کے علاوہ موسم سرما میں بھی ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں، ان کی آمد سے مقامی گھریلوصنعت کو تو فائدہ ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ کھانے پینے، گھڑ سواری سمیت دیگر روزگار سے منسلک افراد کا کاروبار بھی چمک اٹھتا ہے۔

اس پورے ٹور کے دوران ایک بات توبخوبی ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو وہ سب کچھ دیا ہے جس کی دنیا تمنا کرتی ہے، کمی ہے تو اس کو بہترسہولتوں سے آراستہ کرنے اور عالمی سطح پر اس کی تشہیر کی۔

ماہرین کی رائے میں پاکستان میں صرف سیاحت کے شعبے کے فروغ سے ہر سال اربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر یہ ہو گیا تواس کا فائدہ صرف اور صرف اس ارض پاک اور یہاں کے غریب عوام کو ہوگا،جس کے لیے اٹھانا ہے تو بس ایک قدم، کرنا ہے تو صرف ایک فیصلہ، وہ کام جو 70 برس پہلے کیا جانا تھا وہ کم از کم اب تو کر لیا جائے، عوام کی ترقی اور خوشحالی کے اسباب فراہم کر دیے جائیں۔