سلطان خان

عمران خان جب اقتدار میں نہیں آئے تھے تو ان کی ہر بات تبدیلی سے شروع اور تبدیلی پر ختم ہوتی تھی۔ ان کے اس موقف کو میڈیا نے سر آنکھوں پر لیا،کچھ خفیہ ہاتھ کا بھی کمال تھا، اور جسے جوانوں نے من و عن قبول کیا لیکن جب خان صاحب اقتدار میں آئے تو ان کو اپنے وعدے پورا کرنے مشکل لگ گئے،کرنے اور چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کر پا رہے ہیں تو خان صاحب یوٹرن لے کر این آر او نہ دینے کی بیماری کے شکار بن گئے۔

جب شواہد پاس مضبو ط نہ ہوں تو پھر رہائیوںکے موسم کا آنا تو یقینی تھا۔ اس موسم کے آتے ہی خان صاحب کا نعرہ بھی تبدیل ہو ا اور ایک نہیں دو پاکستان کے نظریہ نے جنم لیا اور الزام عدالت پر لگ گیا لیکن جب عدالت نے آرمی چیف کی مدت توسیع کے موقع پر آئین میں ویکیوم کی نشاندہی کی تو معاملہ بیرونی اور اندرونی سازش پر جاکر ٹھہر گیا۔ اور جب ایک خصوصی عدالت نے مشرف کیس میں فیصلہ سنانے کی تاریخ کا اعلان کیا تو تحریک انصاف کی حکومت ’’انصاف‘‘ کے حصول کے لئے قانون کے صحیح طریقہ کارکی پیروی نہ کرنے کا بہانہ بنا کر عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی لیکن جب عدالت نے فیصلہ سنا دیا تو عمران خان کی حکومت نے اپنا موقف تبدیل کرکے مشرف کی سائیڈ لے کر اس فیصلے کو ایک سازش قرار دیا حالانکہ عشق مشرف کی بنیاد پر دو تین دفعہ قانون میں گنجائش کی بنیاد پر وہ یہ کیس واپس لے سکتے تھے لیکن حکومت کیس کو چلاتی رہی۔

رہائی کے اس موسم میں مفتاح اسمٰعیل اور رانا ثناء اللہ کو جب ضمانت ملی تو خان صاحب کے ذہن کے زاویے بھی بدلتے رہے اور بات سازش سے بدل کر کیس میں موجود خامیوں کے بجائے میڈیا مافیا پر آگئی۔ خان کا سفر تبدیلی سے این آر او، این آر او سے سازش اور سازش سے مافیا پر رک گیا۔ پشتو کا ایک معروف قول ہے کہ چیونٹی کی جب موت آتی ہے تو خدا اسے پر دے دیتا ہے بلکہ اردو کی دنیا میں یہ قول کچھ اس طرح ہے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔

دانشور کہتے ہیں اہل اقتدار کی جب سیاسی موت آتی ہے تو وہ عدالت اور میڈیا سے الجھ پڑتے ہیں۔ مشرف عدالت اور میڈیا سے الجھ پڑے تو مشرف کو گھر جانا پڑا بلکہ ملک سے بھی جانا پڑا۔ زرداری الجھ پڑے تو انہیں اپنا ایک وزیراعظم کھونا پڑا، نواز شریف الجھ گئے تو انہیں کرسی سے اتر کر جیل جانا پڑا، اسی مقام سے اب عمران خان بھی گزر رہے ہیں۔

ہر حکومت کو جانے سے پہلے میڈیا میں خامیاں نظر آتی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ میڈیا بکا ہوا ہے۔ 2017 اور 2018 میں نواز شریف نے میڈیا پر الزام لگایا کہ میڈیا عمران خان کے لئے خریدا جا چکا ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت نے نومبر 2017 میں تمام ٹی وی چینل پر پابندی لگائی۔ مسلم لیگ کی حکومت نے یہی الزام 2014 میں دھرنے کے دوران بھی میڈیا پر لگایا تھا کہ اس کو برابر رقم دی جاتی ہے اور دھرنا لمحہ بہ لمحہ منظر دکھایا جاتا ہے۔ لیکن نواز شریف اس الزام کو ثابت نہ کرسکے۔ زرداری دور میں تو باقاعدہ میڈیا کو خریدنے کے لئے خفیہ فنڈ بھی رکھا گیا تھا جس کو حامد میر صاحب نے باقاعدہ سپریم کورٹ جاکر منجمد کروایا تھا اور ان جرنلسٹوں کے نام بھی آشکارہ کر دئے گئے تھے جنہیں یہ پیسہ ملتا یا دیا جانا تھا۔

یہ کوشش خان صاحب کی حکومت نے بھی کی تھی اور ان اینکرز اور کالم نگاروں کو خریدنے کے لئے باقاعدہ 35کروڑ روپے رکھے گئے تھے جو اینکرز اور کالم نگار خان صاحب کی حکومت کے کر توت عوام کے لئے منظر عام پر لاتے ہیں لیکن فواد چوہدری کی مداخلت پر خان صاحب اور ان کے مشیر بازٓ اگئے کیونکہ فواد چوہدری کے خیال میں یہ وہ لوگ ہیں جوکہ ضمیر بیچنے والے ہرگز نہیں ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ وہ یہ ضمیر فروشی قبول نہیں کریں گے الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ یہی کوشش مشرف نے بھی عدلیہ بحالی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے کی تھی لیکن ناکامی کے بعد اس تحریک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لئے ایمرجنسی اس غرض سے لگائی تھی کہ میڈیا کا گلا گھونٹ دیں لیکن اس کے باوجود بھی آزادی اظہار کے جن کو بوتل میں بند نہ کیا جا سکا اور دھڑام سے گرنا ان کا مقدر ٹھہر گیا۔

میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ میڈیا میں کالی بھیڑیں نہیں ہیں لیکن یہ خان صاحب کی ذمہ داری ہے کہ ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کیس بناکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کریں۔ ایسا ہو تو سو بسم اللہ۔ عمران اینڈ کمپنی کو اب یہ کہنا کیوں پڑ رہا ہے کہ میڈیا میں مافیا ہے جو میری حکومت کو ناکام کر رہا ہے۔ خان صاحب اور ان کی ترجمان کے بیان سے سب حقیقت واضح ہو جائے گی۔ عمران خان کے مطابق اخباروں میں مافیا بیٹھا ہے۔ اخبار وں میں روز بری خبریں آتی ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو پرانے نظام سے فائدہ اٹھاتے تھے، پیسہ کماتے تھے، آج ان کی روزی بند ہے، وہ خلاف لکھ رہے ہیں۔

اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جن کی روزی بند نہیں انہیں آپ پیسہ دے رہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان ثناء اللہ کی رہائی کے موقع پر فرماتی ہیں کہ رانا ثناء اللہ کے کیس میں جو تفصیلی فیصلہ آیا ہے اس میں بھی میڈیا کے اندر آنے والی خبریں، اخبارات کے اند ر چھپنے والے بیانات نے پوائنٹ آؤٹ کیا کہ رانا ثناء اللہ بے گناہ ہیں۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عدالت کے فیصلوں نے یہ منعکس کیا کہ میڈیا جس شخص کو بے گناہ یا گناہگار کہہ دے تو عدالت بھی ایسا ہی کرے گی اور قانون اور آئین اگر میڈیا کے موقف سے مطابقت نہیں رکھتے تو پھر میڈیا کا موقف زیادہ طاقتور ہوگا اور عدالت کا فیصلہ میڈیاکے موقف کی بنیاد پر ہوگا۔

یعنی میڈیا کا موقف زیادہ طاقتور ہوگا اور خان اینڈ کمپنی کی نظر میں یہی ایک مافیا ہے۔ خان کی نظر میں ان کے لئے آنے والا سال بہت سخت ہوگا لیکن رحیم اللہ یوسفزی کے خیال میں عمران خان کے لئے یہ گزرا سال بہت سخت تھا آگے کیا ہوگا دیکھا جائے گا۔ اس غصے کی وجہ کیا ہے؟ رانا ثناء اللہ کیس میں ملزم کے وکیل نے فرمایا کہ نہ جائے وقوعہ پر نقشہ بنایا گیا ہے نہ موقع کا گواہ موجود ہے بلکہ بیس کلومیٹر دور اے این ایف کے تھانے میں سامان کھولا گیا ہے، پہلے 21 کلو کا دعویٰ کیا گیا بعد میں پندرہ کلو کا دعویٰ کیا گیا اور عدالت میں صرف 20 گرام پیش کیا گیا اور ثناء اللہ کا ایک نیٹ ورک سے تعلق جوڑ دیا گیا اور اس نیٹ ورک تک پہنچنے کے لئے ان کی جسمانی ریمانڈ بھی نہیں لی گئی نہ مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان لیا گیا۔

اپنے دلائل کی تصدیق کے واسطے انہوں نے اخبارات کے تراشے بھی پیش کئے، عدالت نے تفصیلی فیصلے میں اس پیرا کا ذکر کیا جو کہ فیصلے کا آپرٹیو حصہ بھی نہیں اور اس حصے کو حکومت نے اپنا ڈھول بنا دیا۔ میڈیا اگر بی آر ٹی، مالم جبہ، بلین ٹری سکینڈل، الیکشن کمیشن، آرمی چیف کیس، مشرف کیس، رانا ثناء اللہ کیس اور نیب کے یک طرفہ اور جانبدارانہ احتساب کو احتساب نہیں بلکہ انتقام نہ لکھے تو اور کیا لکھے اور یہ سچ لکھنے والے خان اینڈ کمپنی کی نظر میں ایک مافیا ہے۔