تحریر:اجمل شبیر
طاہرخان داوڑ کی تدفین ہوگئی۔عمرانی حکومت کے دور میں انہیں تمام سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد خاک گیا ہے ۔ہمارے اصول بھی باکمال ہیں۔آسانی کے ساتھ کسی کو بھی اغوا ہونے دیاجاتا ہے۔جب وہ اغوا ہو کر کسی اور ملک میں پہنچا دیا جاتا ہے تو کسی قسم کی مزاحمت تک نہیں کرتی۔اغوا ہونے کے بعد جب اسے قتل کردیا جاتا ہے تو وزیر صاحب یہ فرماتے ہیں کہ معاملہ حساس ہے اس پر بات نہیں کرنی چاہیئے۔
طاہر خان داوڑ کو دنیا کے محفوظ ترین شہر اسلام آباد سے اغواکیا گیا اور افغانستان میں اس کا قتل کیا گیا ۔اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کا تمام نیٹ ورک ختم ہوچکا ہے ۔دہشت گردی کے نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ طاہر خان داوڑ پاکستان میں نہیں افغانستان میں قتل ہوا ہے ۔دہشت گردی تو وہاں ہوتی ہے جہاں انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے ۔طاہر خان داوڑ جیسے پولیس افسر کو اسلام آباد سے اغوا کرنا ،پھر میانوالی سے بنوں اور افغانستان تک لیجانا دہشت گردوں کے لئے مشن امپاسیبل تھا ۔سنا ہے راستے ہیں دہشت گردوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ایک تو بہت ساری چوکیوں سے گزر کر دہشت گرد بنوں تک پہنچے اور اس کے بعد پاکستان سے جب افغانستان داخل ہوئے تو باڑزدہ سرحد کو بھی انہیں پھلانگنا تھا۔
دنیا کے طاقتورترین وزیر اعظم نے طاہر خان داوڑ کے قتل کے بعد فوری تحقیقات کا حکم دے ڈالا ہے ۔انہوں نے خیبرپختونخواہ حکومت اور اسلام آباد کے اعلی پولیس حکام کو حکم دیا ہے کہ معلوم کیا جائے کہ کیسے طاہر خان داوڑ کو اسلام آباد سے سیدھا افغانستان کے صوبے ننگر ہار لیجایا گیا اور قاتل کون تھے؟یہ ہوتا ہے دنیا کا طاقتور ترین وزیر اعظم جو اعلی پولیس افسر کے قتل کے بعد سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا نظر آرہا ہے ۔ہم پاکستانی دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں جنہیں عمران خان جیسا عظیم قائد ملا ہے ۔ایسا عظیم لیڈر جو اپنے پولیس افسر کے قتل کے بعد بہت پریشان اور افسردہ ہے ۔
طاہر خان داوڑ چھبیس اکتوبر کو لاپتہ ہوئے ۔چھ نومبرکو یعنی ڈیڈھ ہفتے کے بعد ان کے لواحقین نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرس کی کہ حکومت طاہر خان کی گمشدگی پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ۔اٹھارہ دن تک ہر طرف شور برپا رہا کہ اسلام آباد سے طاہر خان داوڑ اغوا ہوگئے ہیں ۔ان اٹھارہ دنوں میں ریاست اور حکومت طاہر خان داوڑ کے لئے پریشان رہی ۔کیا ہوا اگر اس عرصے میں حکومت نے طاہر داوڑ کے خاندان کو تسلیاں نہیں دی ۔کیا ہوا 14 نو مبر کو ان کا قتل کردیا گیا ۔حقیقت تو یہی ہے کہ انہیں سرکاری اعزازات کے ساتھ دفنایا گیا ۔
طاہر خان کے اغوا اور قتل کے واقعے سے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ریاست کے سیکیورٹی ادارے بہت مضبوط اور طاقتور ہیں جنہوں نے طاہرخان کا پاک سرزمین پر قتل نہیں ہونے دیا ۔ایک اور بات دیکھیں کہ ہماری ریاست کے وزیر مملکت کتنے باصلاحیت اور قابل انسان ہیں جنہوں نے قتل کے بعد بھی کہا کہ حساس معاملہ ہے ابھی اس پر بات نہیں کی جاسکتی ۔گتھی سلجھے گی تو تب ہی اس مسئلے پر بات کی جائے گی ۔ گتھی سلجھ گئی ۔طاہرخان کی لاش پاکستان پہنچ گئی ۔اب وزیر مملکت برائے داخلہ جناب شہر یار خان آفریدی سینہ تان کر فرمارہے ہیں کہ طاہر خان کے قاتلوں کو عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے گا ۔اسے کہتے ہیں ریاست ،اسے کہتے ہیں رٹ آف دی اسٹیٹ اور اسے کہتے ہیں گڈ گورنس ۔
اب ڈی جی آئی ایس پی آر کی طاہر خان داوڑ کے قتل کے حوالے سے کی جانے والی ٹوئیٹ کی بھی بات کرلیتے ہیں ۔یہ محض ایک ٹوئیٹ نہیں بلکہ بہت بڑا فلسفہ ہے ۔ایک ایسا فلسفہ جو قتل کے حوالے سے نئے راستوں سے متعارف کراتا ہے ۔پہلے تو انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی طرح طاہر خان داوڑ کی موت پر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ طاہر خان کا اغوا اور قتل دہشت گرد تنظیم سے اوپر کا کام لگتا ہے ۔دیکھا جائے تو وہ سچ فرما رہے ہیں کیونکہ عرصہ ہوا دہشت گردوں اور ان کے نیٹ ورک کا تو پاکستان میں خاتمہ کردیا گیا ہے ۔کیسے کوئی دہشت گرد تنظیم میں یہ جرات ہوسکتی ہے کہ وہ دنیا کے محفوظ ترین شہر سے اعلی پولیس افسر کو اغوا کرکے افغانستان لے جائے اور پھر وہاں ان کا قتل کردیا جائے ۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ گھناونی واردات بھارتی یا افغان خفیہ ایجنسی کے تربیت یافتہ اہلکاروں نے کی ہے۔اگر اس قتل میں افغانستان یا بھارت کا ہاتھ ہے تو اس کا مطلب ہے ان دونوں ملکوں کو سبق سیکھایا جائے گا ؟پاکستان ایک طاقتور ریاست ہے اس لئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان اور بھارت کی حکومت کو ہر صورت اس قتل کا جواب دینا پڑے گا ۔
شکر ہے ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم ہوگئی ہے ۔جو اکا دکا دہشت گرد چھپے بیٹھے ہیں ان کو بھی جلد انجام تک پہنچایا جائے گا ۔امید ہے بہت جلد شہید داوڑ کے قتل کی تحقیقات منطقی انجام تک پہنچ جائے گی ۔دو ہزار اٹھ سے دو ہزار تیرہ تک اس ملک کے حالات بہت بدترین تھے ۔تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات ہورہے تھے ۔لیکن جب سے اپنے عمران خان صاحب وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں ،حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں ۔کیا ہوا کہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا ۔وہ دہشت گردی کا واقعہ تو نہیں تھا ،انہیں تو زاتی دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا تھا ۔یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی ملتان سے اغوا ہوئے افغانستان لائے گئے۔اس کے بعد انہیں زندہ بازیاب بھی کرالیا گیا ،اب وہ ماشااللہ زندہ و سلامت ہیں ۔اسی طرح مرحوم سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو لاہور سے دہشت گردوں نے اغوا کیا اور انہیں افغانستان لے گئے ۔وہ بھی زندہ و سلامت وآپس لوٹ آئے ۔یہ دور عمرانی کا کارنامہ ہے کہ طاہر خان داوڑ اسلام آباد سے اغوا ہوکر افغانستان پہنچے اور لاش کی صورت میں پاکستان لائے گئے۔طاہر خان کا قتل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے ،اب وہ رینگ رینگ کر اکا دکا وارداتیں کررہے ہیں ۔ اکا دکا واردات میں اگر طاہر خان کا قتل ہوجاتا ہے تو اس پر ریاست اور ریاست کے عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔