مہاتما
گوتم بدھ اور ان کی تعلیمات اور فلسفہ‘ گندھارا آرٹ‘ ثقافت اور تمدن کی
وجہ سے سر زمین سوات کو ایک خاص اور منفرد مقام حاصل ہے۔ نہ صرف یہ کہ بدھ
مت یہاں پر پروان چڑھا اور یہاں سے چین‘ تبت‘ اور وسطی ایشیا کو برآمد کیا
گیا اور دنیا کا ایک بہت بڑا فن اور کلچر وجود میں آیا۔ بلکہ یہ بات بدھ مت
کی کتابوں میں موجود ہے کہ مہاتما گوتم بدھ بذات خود یہاں تشریف لائے تھے
اور بعد میں ان کی دو عظیم المر تبت پیروکار حکمرانوں اشوک اور کنشک اور
سوات کے مقامی لوگوں نے اس علاقے اور تہذیب کو معراج تک پہنچا دیا یہی وجہ
ہے کہ راجہ اشوک نے اپنا ایک ذاتی باغ’’ اودیانہ‘‘ اشوکا گارڈن اور پارک
لینڈ کا نام دیا۔
گندھارا فن کے بارے میں دنیا بھر کا کوئی بھی علاقہ
سوات کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور آج بھی بہت سے اثار سوات کے چپے چپے میں
موجود ہیں۔ لیکن اس تہذیب اور تمدن کے متعلق نادر اور بیش بہا معلومات کو
عام کرنے میں سوات کا عجائب گھر بڑی خدمت انجام دے رہا ہے۔
ملک بھر میں
چھوٹے بڑے چالیس عجائب گھر موجود ہیں۔ ان میں سے ایک سوات عجائب گھر ہے
سوات کے دارالحکومت سیدو شریف میں سیدو منگورہ روڈ پر ایک بہت ہی خوشگوار
اور دل کش جگہ پر وقع ہے اور اپنی تزئین و آرائش‘ سبزہ زار اور آرام دہ
ریسٹ ہائوس اور نادر اشیاء کے لئے بہت مشہور ہے۔
سوات میں سب سے پہلے
آثار قدیمہ کا ایک اچھا سروے مشہور ماہر اثار قدیمہ سر اورل سٹائن نے کیا
تھا۔ ان کے بعد آثار قدیمہ کے ماہرین نے مختلف مقامات پر چھوٹی موٹی
کھدائیاں کر لی تھیں۔ لیکن چونکہ ان کا کام اور طریقہ سائنسی بنیادوں پر
نہیں تھا۔ اس لئے کچھ زیادہ کامیابی نہ ہوسکی اور کچھ زیادہ سامان بھی ہاتھ
نہ آ سکا۔ بعد میں ۱۹۵۶ء میں اٹلی حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ پاکستان کے
باہمی تعاون اور سمجھوتے کے تحت سوات میں سائنٹیفک بنیادوں پر کام شروع
ہوا۔
اس میوزیم میں بہت سی گیلریاں ہیں۔ جن میں بعض میں بدھ مت سے
متعلق اشیاء ہیں۔ بعض میں گندھارا گریو کلچر اور پری بدھسٹ کے آثار موجود
ہیں۔ بعض میں آثار قدیمہ کے مائزر آب جیکٹس ہیں۔ بعض گیلریاں ان ثقافتی اور
تہذیبی اشیاء کے لئے مخصوص ہیں۔ جن کا تعلق صرف سوات سے ہے اور جس میں
سوات کوہستان کا حصہ بڑا دلفریب ہے۔
اس میوزیم کی پوری بلڈنگ کو چند
سال پہلے دوست ملک جاپان والوں نے گرادیا ہے اور ایک نہایت حسین بلڈنگ ازسر
نو تعمیر کرائی ہے۔ جو ملک کے عجائب گھروں میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔
سوات میوزیم
