خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور بدامنی کی صورتحال پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یقین دہانی دلائی ہے کہ تمام حالات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور پاکستان میں امن و امان اور عوام کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ اس سلسلے میں کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے سوات کا دورہ کیا اور مالاکنڈ، بونیر، شانگلہ اور مردان کے عمائدین اور معززین سے ملاقات کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بالخصوص سوات آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز کی بھرپور اور غیر متزلزل حمایت پر تمام عمائدین کی تعریف کی اور کہا کہ سوات میں دہشت گردوں کے خلاف بے مثال کامیابی اس لیے ممکن ہوئی کیونکہ لوگ سیکورٹی فورسز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن کی کامیابی سے تکمیل کے بعد سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امن کو یقینی بنائیں اور کوئی قانون کو ہاتھ میں نہ لے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن مالاکنڈ ڈویژن اور سوات کو طالبان کے حوالے نہیں کیا جائے گا، علاقے کے لوگوں سے درخواست ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے سے گریز کریں۔ کور کمانڈر نے مزید کہا کہ یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ جیسے فوج نے ان دہشت گردوں کو صلح کے عمل کی آڑ میں واپس آنے کی اجازت دے دی ہو، ہم نہ صرف اس کی نفی کرتے ہیں بلکہ ہر حال میں ریاست کی رٹ بحال کریں گے، اس طرح کے منفی خیالات عوام میں خوف اور عدم اعتماد پیدا کرتے ہیں، ہم انہیں آڑے ہاتھوں لیں گے، مقامی لوگ تعاون کریں، یہ2022 ہے،2009 نہیں، ہم دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ قانون کے مطابق ایکشن لیں گے۔ حالیہ دنوں میں شدت پسندی کے متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور پولیس اہلکاروں سمیت نہتے شہریوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ تمام تر آپریشنوں کے باوجود بدامنی اور دہشت گردی میں اضافہ ہی ہوا ہے، حالات ابھی تک قابو سے باہر ہیں، زیادہ تر حملے افغان اور سرحد بارڈر کے پاس ہوئے ہیں۔ حالات و واقعات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ حکومت کی کارکردگی اور حفاظتی اقدام کرنے والی قیادت پہ سوال اٹھتے ہیں۔ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی اور بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومتی نمائندے بالکل خاموش ہیں، عوام جاننا چاہتی ہے کہ آخر سرحد پہ مضبوط باڑھ لگانے کے باوجود دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں؟ بارڈر پہ تعینات افسران کی موجودگی کس لیے ہے جب حفاظتی انتظام ناقص ہیں اور حملوں سے بچایا نہیں جا سکتا؟ نقل و حرکت پہ نظر رکھناکس کا کام ہے؟ کیا سیکورٹی فورسز ابھی تک حملوں میں ملوث مقامی لوگوں کو نہیں پکڑ سکی؟ یہ ایک کڑا سوال ہے کہ کیا خیبر پختونخوا میں ایسی تحاریک موجود ہیں جو دہشت گردوں کو پنپنے میں مددگار بن رہی ہیں؟ کیا افغانستان میں خصوصی طور پر خیبر پختونخوا کے حوالے سے معاہدے نہیں کیے گئے؟ حکومت خاموش کیوں ہے؟ وزیر اعلی کسی قسم کا بیان دینے سے گریزاں کیوں ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس دہشت گردی میں 80 ہزار عوام کو ناحق قتل کیا گیا اور7 ہزار سیکورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں؟ حکومت کی خاموشی کسی ذاتی مفاد کا شاخسانہ نظر آتی ہے۔ بظاہر عوام کو تسلی دی جا رہی ہے جبکہ اندر خانے کوئی سیاسی گیم کھیلی جا رہی ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے باوجود دخل اندازی اور اس خطے میں توازن نہ رکھتے ہوئے اس خطہ کو ایک نا ختم ہونے والی جنگ کی طرف لے جایا جا رہا ہے جس کا پاکستان بالکل بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ بے گناہ عوام اور سیکورٹی فورسز سب کی زندگی داؤ پہ لگا کر حکومت کا پہلو ہی کرنا اور دوٹوک فیصلہ نہ کرنا اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اسے ملک کی سلامتی اور پائیدار امن سے زیادہ اپنے اقتدار کی پائیداری منظور ہے۔

بشکریہ : ڈیلی شہباز پشاو