سلیمان ایس این

ہر بچہ جو دنیا میں آتا ہے تو اسے ماں کی گرم آغوش اور باپ کے مشفق سائے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس دنیا میں سینکڑوں ہزاروں لاکھوں نہیں، کروڑوں بچے یتیمی کا دکھ سہہ رہے ہیں۔ ایک وہ بچے ہوتے ہیں جنہیں ماں باپ کا بے جا لاڈ پیار بھی ملا ہوتا ہے اور دنیا جہان کی نعمتیں اور آسائشیں بھی میسر ہوتی ہیں۔ انہیں دکھ تکلیف مصیبت بیماری ذمہ داری کسی چیز کا پتہ نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی عیش وآرام سے گزرتی ہے لیکن ہر وہ بچہ جو یتیم ہو جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یتیمی کیسا روگ ہے جو ایک کم سن معصوم بچے سے اس کا بچپن اور سائبان چھین لیتی ہے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کیلئے دولت اور آسائش اکٹھی کرنے کی خاطر گناہ ثواب کا فلسفہ بھی فراموش کر دیتے ہیں بلکہ ناجائز ذرائع رشوت سفارش بدیانتی خیانت اور غلط ذرائع آمدن سے اپنے بچوں کو شاہانہ طریقے سے پالتے ہیں۔ بے شمار لوگوں کا حق مارتے ہیں کسی کو دھوکہ دیتے ہیں، کسی کے مال میں غبن کرتے ہیں اور کسی جگہ رشوت یا جعلسازی سے پیسہ کماتے ہیں لیکن اپنی بیوی کیلئے بھی دولت کے انبار اکٹھے کرتے ہیں اور اپنے بچوں کیلئے بھی دھوکہ دہی سے جائیدادیں بناتے ہیں لیکن یہی بچے اکثر بڑھاپے میں اپنے باپ کو کسمپرسی میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یا پھر بوڑھا اور بیمار ہونے پر منہ تک نہیں لگاتے بلکہ جوان ہونے یا شادی کے بعد اسی باپ کو بے آسرا اور بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں لیکن ساری دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ غریبوں کے بچے یا یتیم ویسیر بچے اپنے ماں یا باپ کے زیادہ ہمدرد، ذمہ دار اور فرض شناس ہوتے ہیں۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں دکھ، درد اور اطاعت وفاداری ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر 30 سکینڈ میں دو بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔ دنیا چھ ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جس میں اس وقت 15 کروڑ30 لاکھ بچے یتیم ہیں۔ ان میں سے تقریباً 6 کروڑ یتیم بچوں کا تعلق ایشیا سے ہے۔ دنیا میں مسلط جنگوں اور مناپلی کی جنگ میں بہت سے چھوٹے اور کمزور ممالک میں جنگ وجدل جاری ہے۔ خاص طور پر اسلامی اور افریقی ممالک میں یہ صورتحال گھمبیر ہے۔ پاکستان میں یتیم خانوں کی تعداد خاصی محدود ہے۔ زیادہ تر سرکاری یتیم خانے ہیں، یہاں یتیم بچے کسمپرسی کی حالت میں رہتے ہیں تاہم پاکستان میں اپنی مدد آپکے تحت نجی سطح پر این جی اوز، رفاہی فلاحی تنظیمیں یا مخیر حضرات یتیم بچوں کی خدا خوفی کے تحت مالی امداد کرتے ہیں اور بچوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ یہ سراسر کارخیر ہے۔ ایسی مائوں پر رحم ترس آتا ہے جو بچوں کو بھی پالتی ہیں گھر کے کام کاج بھی کرتی ہیں۔ گھر میں رہ کر سلائی کڑھائی یا لوگوں کے کام کرکے بچوں کیلئے پیسے کماتی ہیں اور باہر جا کر نوکریاں بھی کرتی ہیں۔ یتیم بچوں کی مائوں پر دوہری بلکہ تین گنا زائد ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ بغیر مرد اور بغیر پیسوں کے بچے پالنا مشکل کام ہے لیکن بیوہ عورتیں بہادری سے یہ کام کرتی ہیں

۔خپل کور فاونڈیشن ایک ایسا ادارہ ہے جو عرصہ دراز سے یتیم بچوں کی کفالت کر رہا ہے۔ اس وقت خپل کور ادارہ ہزاروں یتیم بچوں کا سہارا بنی ہوئی ہے۔
خپل کور فاونڈیشن کا اندرونی ماحول روائتی کفالتی اداروں کے برعکس انتہائی خوشگوار، منظم اور گھریلو ہے۔ بچے یہاں پر اپنے مشفق اساتذہ کے زیر سایہ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں جب کہ اساتذہ بھی اپنے حسن اخلاق سے ان بچوں کو والدین کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے اپنے تمام تر معاملات بلا جھجھک انتظامیہ کے ساتھ زیر بحث ہی نہیں لاتے بلکہ ان سے مناسب راہنمائی کے خواہاں بھی رہتے ہیں۔ ادارے کے اندرونی ماحول کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ یہ ایک ایسا گھر ہے جس کے رہنے والے کسی الجھاؤ یا کسی پریشانی کے بغیر اپنے روز مرہ کے معاملات احسن انداز میں سرانجام دے رہے ہیں۔خپل کور کے ماحول کی یہی انفرادیت اور حسن تعلق اسے ایسے تمام دوسرے اداروں سے منفرد اور ممتاز ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے روشن مستقبل کا عکاس بھی ہے۔


ادارے کی تعلیمی سرگرمیاں نمایاں اہمیت کی حامل ہیں تمام بچوں کو ان کی صلاحیتوں ذہانت اور طبعی رحجان کے اعتبار سے سکول اور حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ادارے کی تعلیمی سرگرمیوں کے جائزے سے اس کے اعلیٰ میعار کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔


دنیا بھر کے بچوں کو اپنی شخصیت کے نکھار اور اپنے تعلیمی اور نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے انفرادی توجہ کی سخت ضرورت ہو تی ہے۔ لہذا بچوں کے اس فطری تقاضے کو پورا کر نے کے لیے ادارے میں قابل ترین ٹیوٹرز کا اہمتام کیا گیا ہے۔ جو مخصوص اوقات میں تمام بچوں کی تعلیمی ونفسیاتی مشکلات کو انفرادی سطح پر حل کرتے ہیں۔


خپل کور فاونڈیشن میں زیادہ ترایسے بچے،بچیاں زیر تعلیم ہے جوسوات میں تخریب کاری،2010 سیلاب اور مختلیف حادثات کے دوران یتم ہوئے ،خپل کور فاونڈیشن آج پورے دنیا میں ایک مثالی ادارہ بن چکا ہے جس کا سہرا ڈائریکٹر حاجی محمد علی خان کے سر جاتا ہے ان کی ان گنت محنت ،قابلیت تگ ودو کی بدولت آج خپل کور فاونڈیشن کو ایک اعلی مقام حاصل ہے حاجی محمد علی خان ڈائریکٹر خپل کور فاونڈیشن کو سوات کا ایدھی بھی کہا جاتاہے کیونکہ انہوں نے اس ادارے کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کردی ہے

خپل کور فاونڈیشن کی بہت سے یتم بچے اس وقت اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹیوں میں پڑھ رہےہیں جن کا سارا خرچ خپل کور فاونڈیشن برداشت کر رہا ہے بچوں کی کفالت ،کھانا پینا،کپڑے،جوتے،یونیفارم، سکول بیگ کتابیں کاپیاں سٹیشنری دینے کے علاوہ خپل کور فاونڈیشن بچوں کو خوراک رہائش کا انتہائی پرکشش انتظام بھی مہیا کرتی ہے اور کھیل وتفریح کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اسکے علاوہ بچوں کے طبی معائنے کے لئے ڈسپنسری بھی موجود ہے ۔جس میں ایک قابل ہیلتھ ٹیکنیشن 24 گھنٹے موجود ہوتا ہے

خپل کور فاونڈیشن نے یتیم بچوں کی خدمت کا جو بیڑہ اٹھایا ہے۔ وہ قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ ہم سب کو بطور انسان اس کارخیر میں حصہ لینا چاہئے۔ کون جانے ہماری ایک چھوٹی سی نیکی، معمولی سا نذرانہ پیار کے دو میٹھے بول کسی یتیم کا مقدر جگا دیں اور ہمیں خدا کی نگاہ میں سچ مچ اشرف المخلوقات بنا دیں۔