دخترِ حبیب جالب ”طاہرہ جالب“ 5 جولائی 2020ء کو لاہور سے سوات تشریف لائیں۔ سوات میں ”زلفان دی بینڈ“ اور ”نوے ژوند“ کے منتظمین نے لنڈاکے چیک پوسٹ پر ان کا پُرجوش استقبال کیا۔ وہاں سے سرکاری پروٹوکول کے ذریعے انہیں ریاض احمد حیران (خادمِ ادب) کے ری ہیب سنٹر ”نوے ژوند“ میں لایا گیا۔ یہاں طاہرہ جالب کی ملاقات نشے کے ان عادی افراد کے ساتھ کرائی گئی جو زیرِ ِ علاج ہیں۔ طاہرہ جالب کے ساتھ حبیب جالب کی پوتی سارا بھی تشریف لائی تھیں۔ انہوں نے مریضوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ واضح کرتے ہوئے ان کو نصیحت کی کہ نشے کی لعنت سے خود کو ہمیشہ کے لیے بچائے رکھیں۔
”نوے ژوند“ کے دفتر میں باتیں کرتے ہوئے طاہرہ جالب نے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا۔ نیز انہوں نے جالب ٹرسٹ کے قیام، اغراض و مقاصد اور جالب کے مشن کو آگے بڑھانے کے بارے میں تفصیلاً بتایا۔ اس موقع پر ریاض احمد حیرانؔ کی طرف سے پُرتکلف چائے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چائے کے بعد طاہرہ جالب اور ان کے ساتھ آنے والے دیگر مہمان شہاب شاہین کے گھر رخصت ہوگئے۔ دوسرے دن مہمانوں کی پہلی ملاقات ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سوات میں وکلا کے ساتھ ہوئی۔ طاہرہ جالب کا یہاں گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ وکلا کے ساتھ نشست میں انہوں نے حبیب جالبؔ کی نظمیں سنائیں۔ یہاں سے فارغ ہو نے کے بعد سرکٹ ہاؤس میں کرنل سہیل سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں طاہرہ جالب نے حبیب جالبؔ کے بارے میں بتاتے ہوئے اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کو سراہا۔ نیز حبیب جالب ؔ کی حب الوطنی پر بھی روشنی ڈالی۔کرنل سہیل کی ملاقات کے بعد اب باری تھی ریڈیو اسٹیشن کی۔ ریڈیو سوات میں سوات کے معروف صحافی عصمت علی اخون نے میزبانی کے فرائض ادا کرتے ہوئے طاہرہ جالب کو سوات آنے پر خوش آمدید کہا اور ریڈیو کے ذریعے ان کا تفصیلاً انٹرویو کیا۔ ریڈیو سوات سے فارغ ہو نے کے بعد دوپہر کے کھانے کا وقت ہو نے لگا تھا کہ شہاب شاہین نے مرغزار میں لنچ کی تجویز پیش کی۔ ان کی تجویز پر سب متفق ہو گئے۔ یوں مرغزار کے ”وائٹ پیلس“ میں سوات کے روایتی کھانوں سے لطف اندوز ہو نے کے بعد مہمانوں کو پہاڑ کی سیر کرائی گئی۔ واپسی پر فوٹو گرافی بھی کی گئی۔ ادھر بائی پاس پر واقع ”کیفی ڈی سوات“ کے مالک فاروق خان ہمارے منتظر تھے۔ تقریباً چھے بجے ”کیفی ڈی سوات“ پہنچ کر فاروق صاحب مع سٹاف ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہاں باقاعدہ طور پر مشاعرہ کیا گیا، جس میں راقم کے دوست ڈاکٹر نور البصر امن (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہئ پشتو ملاکنڈ یونیورسٹی) اورڈاکٹر ظفر بخشالی (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہئ پشتو عبد الولی خان یونیورسٹی) کے علاوہ مقامی شعرا موجود تھے۔ راقم نے اس مشاعرے کے منتظم کے فرائض سنبھالے۔ صدارت طاہرہ جالب نے کی جب کہ مہمانِ خصوصی ڈاکٹر نور البصرامن رہے۔ باری باری ہر شاعر نے اپنی غزل پیش کی۔ آخرمیں طاہرہ جالب نے حبیب جالب ؔ کا مشہور کلام ”مَیں نہیں مانتا“ ترنم کے ساتھ پیش کی۔ فاروق صاحب جو ”کیفی ڈی سوات‘‘ کے مالک ہونے کے ساتھ اُردو کے بہترین شاعر بھی ہیں، نے پر تکلف چائے کا بندوبست کیا تھا۔یہ چائے پیزا، کولڈ ڈرنکس، چکن اور مختلف قسم کی مٹھائیوں پر مشتمل تھی۔چائے سے فراغت کے بعد دریائے سوات کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے ایک بار پھر فوٹو گرافی کی گئی۔ اب چوں کہ رات کی تاریکی چھاگئی تھی، اس لیے دریا کے کنارے بیٹھ کر دریا ئے سوات کی موجوں اور یخ بستہ ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ طاہرہ جالب سوات جیسی وادی میں رہتے ہو ئے ہمیں وقتا ً فوقتاًمبارکباد دیتی رہیں۔ یہیں رات کا کھانا دو بجے کھا کر طاہرہ جالب نے مہمانوں سمیت ایک بار پھر شہاب شاہین کے گھر کا رُخ کیا اور ہم اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
دوسرے روز 7 جولائی کو ”نوے ژوند“ میں سہ پہر 3 بجے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ مشاعرہ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر مقررہ وقت سے تین گھنٹے پہلے یعنی بارہ بجے منعقد ہوا۔ مشاعرے کے منتظم کی خدمات بھی راقم کے ذمے تھیں۔مشاعرے میں مختلف نیوز چینلوں کے رپورٹرتشریف فرما تھے، جن میں فضل خالق، نیاز احمد خان اور حسن خان جیون کے علاوہ اور بھی تھے۔ مشاعرے کی صدارت آل سوات ہوٹل مینجمنٹ ایسو سی ایشن کے صدر الحاج محمد زاہد خان (تمغائے شجاعت) نے کی۔ انہوں نے سوات اور سواتی پٹھانوں کی تاریخ پر مفصل بحث کی۔ ایک بار پھر ریاض احمد حیران (خادمِ ادب) کی طرف سے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیاگیا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو نے کے بعد سوات کے معروف سیاسی و سماجی شخصیت ابراہیم دیولئی عرف لالا جی، سوات کے معروف خطاط شمس الاقبال شمس ؔ اور فضل محمود روخانؔ نے طاہرہ جالب کو تحفے پیش کیے۔ سوات میں اردو ادب کے سر خیل فضل ربی راہی ؔ نے طاہرہ جالب کے ساتھ حبیب جالب کی خدمات پر مفصل بحث کی۔
اس کے بعد طاہرہ جالب کو مہمانوں کے ہمراہ چیل (مدین) کے لیے روانہ کیا گیا۔ یہ قافلہ کئی گاڑیوں پر مشتمل تھا۔ عالم گنج کے مقام پر آڑوؤں کے باغ میں آڑو کھانے کے علاوہ فوٹو گرافی بھی کی گئی۔ امجد علی سحابؔ نے تمام دوستوں کو آڑو کھلائے۔ سوات کی حسین وادیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے یہ قافلہ مدین پہنچ گیا۔ مدین میں اے این پی کے رہنما جعفر شاہ کے ساتھ مختصر ملاقات ہوئی۔ جعفر شاہ منجھے ہوئے سیاست دان کے علاوہ ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ انسانیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کی دلچسپ باتوں کو سنتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے کسی جامعہ کے پروفیسر کا لیکچر سن رہا ہوں۔ آخر میں ان کی طرف سے پُرتکلف چائے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دوسری طرف شہاب شاہین کے چچا زاد بھائیوں نے چیل میں ”دم پوخ“سے مہمانوں کی تواضع کرنا تھی۔ اس لیے انہیں اس ڈیوٹی پر مامور کیا گیا تھا۔ رات کو چیل میں بہتے پانی اور آبشاروں کے درمیاں چٹائیاں بچھی تھیں۔ یہاں ایک پُرلطف محفل جمی۔ شہاب شاہین کے چچا زاد کھانے کی تیاری میں برابر مصروف نظر آرہے تھے۔ ٹھنڈے موسم نے جلد ہی بھوک بڑھائی۔ بالآخر کھانا تیار ہوا۔”دم پوخ“ اور مدین کے مشہور چپلی کباب کا مزا لیتے ہوئے سب نے سیر ہو کر کھایا۔ آپ اندازہ لگائیے کہ رات کا وقت، سہانا موسم، ٹھنڈی ہوائیں، یار دوست اور پُرتکلف کھانا ہو، تو اور کیا چاہیے!
رات کا قیام شہاب شاہین کے چچا کے ہاں ”بابر ہاؤس“ میں طے پایا تھا۔ وہاں پہنچ کر امجد علی سحابؔ اور ان کی ٹیم نے طاہرہ جالب کا تفصیلاً انٹرویو لیا۔ صبح کی اذان تک محفلِ مشاعرہ میں ریاض احمد حیرانؔ کی دل لبھانے والی شاعری اور شہاب شاہین کی مسحور کن آواز سے سب لطف اندوز ہو تے رہے۔ اس دوران میں مختلف قسم کے کھانوں سے ہماری خاطر تواضع بھی ہو تی رہی۔ نماز پڑھ کر سب سوگئے اور صبح سویرے 11 بجے اٹھے۔ ناشتا کرنے کے بعد امجد علی سحابؔ اور ان کی ٹیم مینگورہ واپس ہوئی جب کہ کالام میں عوامی نیشنل پارٹی کے سابقہ ناظم امیر سید ہمارے انتظار میں تھے۔ لہٰذا ہم کالام کے لیے عازمِ سفر ہو ے۔ راستے میں قدرتی آبشاروں اور چشموں سے لطف اندوز ہو تے ہوئے تقریباً دو بجے ہم کالام پہنچ گئے۔ ناظم امیر سید جو شہاب شاہین کے کزن بھی ہیں، نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ انہوں نے زبردست لنچ کا انتظام کیا تھا جو دریائے سوات کی مچھلی کے علاوہ ٹراؤٹ مچھلی، باربی کیو، اچار گوشت، قورمہ، سیخ کباب، کالام کا مشہور چپلی کباب، مٹن کڑاہی اور سبزی پر مشتمل تھا۔ کھانے کے بعد سویٹ ڈش اور سوات میں پایا جانے والا تقریباً ہر قسم کا موسمی فروٹ بھی لایا گیا۔ چائے کے بعد ناظم صاحب نے طاہرہ جالب اور حبیب جالب کی پوتی سارہ کو اپنی گاڑی میں بٹھایا۔ یوں یہ قافلہ اوشو گراؤنڈ پہنچ گیا، جہاں طاہرہ جالب کے ہاتھوں کرکٹ ٹورنمنٹ کا افتتاح کروایا گیا۔ فوٹو گرافی کے بعد واپسی پر دریائے سوات کے کنارے چارپائیوں پر بیٹھ کر ایک اور مشاعرہ کیا گیا، جس میں نورہ احساس نے غزل پیش کی۔ راقم، ریاض احمد حیرانؔ اور شہاب شاہین نے اردو کلام پیش کیے۔ دریا کے کنارے چائے پی کر تھکن سے چور جسم کو ایک قسم کی راحت مل گئی۔ عصر کے بعد ہم کالام سے بحرین کے لیے روانہ ہو گئے۔ بحرین میں ملک نواز ہمارے انتظار میں تھے۔ ان کے ہاں پہنچ کرہم نے مغرب پڑھی۔
ملک نواز سیاست اور ادب پر کافی عبور رکھتے ہیں۔ سیاست و ادب سے متعلق ان کی معلومات سن کر ہم حیران ہی رہ گئے۔ رات گیارہ بجے ملک نواز کے ہاں پرتکلف کھانے کے بعد ہمارے لیے بحرین کے ایک ہو ٹل میں کمرے بک کیے گئے تھے، جہاں ہم نے اپنا سامان رکھا اور بحرین بازار میں چہل قدمی کے لیے روانہ ہو ئے۔ بازار میں دیگر مقامی و غیر مقامی لوگوں کا ہجوم تھا۔ ریاض احمد حیران نے سب کی تواضع گرم کافی سے کرائی۔ مہمانوں نے یہاں شاپنگ بھی کی۔ رات دو بجے تک ہم ہوٹل میں آگئے۔ ایک بار پھر یہاں محفلِ مشاعرہ سج گئی۔ نورہ احساس، طاہرہ جالب، ریاض احمد حیران، راقم اور شہاب شاہین کے کلام سننے کے بعد یہ محفل برخاست کر دی گئی اور سب سو گئے۔
اگلے روز 9 جولائی کو 11 بجے اٹھ کر شہاب شاہین نے سب کو زبر دست ناشتا کرایا۔ ہم نے بحرین سے جلدی نکلنا تھا، کیوں کہ درشخیلہ میں افضل خان لالا کے ہاں سوات کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت ابراہیم دیولئی، افضل خان لالا کے نواسے اور طاہرہ جالب سے ملاقات کرنے کے لیے دیگر شائقین حجرہ افضل خان لالا میں ہمارے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ہم یہا ں کوئی ڈیڑھ بجے پہنچ گئے۔ طاہرہ جالب، راقم، سارہ، ریاض احمد حیران، شہاب شاہین اور ابراہیم دیولئی عرف لالاجی نے افضل خان لالا کی قبر پر پھول چڑھاکر دعا کی۔ یہاں بھی پُرتکلف کھانے کا اہتمام ہوچکا تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد طاہرہ جالب کو افضل خان لالا کی شخصیت پر لکھی گئی کتاب پیش کی گئی۔ مہمانوں نے یہاں بھی فوٹو گرافی کی۔ تقریباً ساڑھے تین بجے ہم مینگورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مینگورہ پہنچ کر طاہرہ جالب لاہور واپسی کے لیے بہ ضد تھیں۔ حالاں کہ ریاض احمد حیران انہیں ”نوے ژوند“ میں مزید ایک دن کے لیے ٹھہرنے کی گذارش کرتے رہے، لیکن طاہرہ جالب اور دیگر مہمان ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جانے کے لیے اصرار کرتے رہے۔
چائے کے بعد تقریباً پانچ بجے طاہرہ جالب سوات سے لاہور کے لیے اپنی گاڑی میں روانہ ہوئیں، اور رات بارہ بجے کے قریب بخیر وعافت لاہور پہنچ گئیں۔