عابد صدیق
سوات ایک سابقہ ریاست تھی جسے 1970ء میں ضلع کی حیثیت دی گئی۔ ملاکنڈ ڈویژن اور ضلع سوات دنوں کا صدر مقام سیدو شریف ہے۔یہ منگورہ شہر سے صرف 6 منٹ کی مسافت پر ہے۔(شاید پہلے میں نے مینگورہ کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ سوات کا صدر مقام ہے جو غلط تھا۔)درحقیقت یہ جڑے ہوئے شہر ہیں اور لوگ مینگورہ کو ہی صدر مقام سمجھتے ہیں۔ سوات کو خیبر پختونخوا ہ کے شمالی خطے میں امتیازی حیثیّت حاصل ہے۔یہ ضلع سنٹرل ایشیاء کی تاریخ میں علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ مت تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شہرت حا صل تھی اور اسے اودیانہ یعنی باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ سیرو سیاحت کے کثیر مواقع کی وجہ سے اسے پاکستان کا سویٹزرلینڈ کہا جاتا ہے۔ شمالی علاقہ جات کی ترقی میں سوات کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ سر سبز و شاداب وسیع میدانوں کے علاوہ یہ تجارت کا مرکز بھی ہے۔ یہاں خوبصورت مرغُزار اور شفاف پانی کے چشمے اور دریا موجوکالام،مدین اور بحرین میں زندگی کی تمام سہولیات بشمولِ اعلٰی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ انتہائی محنتی اورذہنی لحاظ سے کافی ترقی یافتہ ہیں۔دنیا کے حسین ترین خطوں میں شامل یہ علاقہ، پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جب کہ صوبائی دار الحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170کلومیٹر ہے۔ 2017ء کی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق ضلع سوات کی کل آبادی 23 لاکھ ہے۔ اور اس کا کل رقبہ 5337 مربع کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ، مغرب میں ضلع دیراور ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے اور جنوب مشرق میں سابق ریاستِ امب(دربند) کا خوب صورت علاقہ واقع ہے۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، بالائی سوات، زیریں سوات،کوہستان سوات۔سوات میں سیروسیاحت کے لیے خاص کرگبین جبہ،جارگو آبشار،شنگرو ڈنڈ،سلاطین، گٹ پیوچار ،مالم جبہ، کبل، سیدو شریف، شریف آباد،خوازہ خیلہ، بحرین، مدین، کالام،مٹہ،بری کوٹ،چار باغ سیگرام ملوکا مینگورہ بحرین اور خزانہ زیادہ تر مشہور ہے۔ پاکستانی فوج کی جانب سے موسم گرما میں جشن سوات کے رنگا رنگ فیسٹیول ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔ موٹرسائیکل سے چھلانگ، چوگان کے مقابلے، گھڑسواری، گھوڑوں کا رقص، پیرا شوٹ سے چھلانگ، پیرا گلائیڈنگ کے شاندار مظاہرے اور رات کو آتشبازی سے آسمان پر رنگ و نور کی بارش جیسا منظر دیکھا جاتا ہے۔ سیدو شریف کا میں سیدو بابا مزار ہے ۔سیدو بابا کا تعلق یوسف زئی خاندان سے تھا جو سوات ریاست کے والی تھے۔سیدو بابا کی وفات کے بعد ان کے مزار کی نسبت سے اس شہر کا نام سیدو شریف رکھا گیا ہے۔یہاں پر آج بھی اس خاندان کی ملکیتی اراضی اور مکان موجود ہیں۔یہاں ہمارے میزبان نواب آف مینگورہ تھے۔ایک تعمیراتی کمپنی کے مالک ہیں اور اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو سوات ریاست کے مالک تھے۔یوں پورے ملا کنڈ ڈویژن میں ہی لوگ مہمان نواز اور ملنسار پائے جاتے ہیں لیکن مینگورہ میں بھی یہ خوبی زیادہ پائی جاتی ہے۔ہم رات بارہ بجے کے بعد یہاں پہنچے اور سیدھے ان ہی کے گھر گے۔وہ ہمیں راستے سے ہی آکر لے گے کیونکہ ہمارے لیے یہ ایک نئی جگہ تھی۔رات گے تک خوب گپ شپ ہوئی،چائے کے کئی دور چلے اور مالاکنڈ ڈویژن پر خوب سیر حاصل بحث کی گئی اور اس ڈویژن کے جغرافیہ تاریخ اور کلچر کو خوب سمجھنے کی کوشش کی۔رات ان ہی کے گھر قیام کیا اور صبح دیگر مقامات کے علاوہ سیدو شریف بھی گئے جہاں والی آف سوات کے مہمان خانہ اور کئی دیگر تاریخی مقامات دیکھے۔یہاں تعمیر کی گئی بعض عمارتیں پچاس سال سے زائد عرصہ اور کئی تو سو سال پرانی ہیں لیکن انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔طرز تعمیر کے علاوہ سہولتوں کے اعتبار سے بھی اس ریاست کے حکمرانوں کی سوچ بہت آگے کی تھی۔مثلاً شہر میں ایک بوائز کالج ہے جو خاصا صہ قدیم ہے اس کے اسٹاف (یعنی گریڈ چار سے بیس کے) کے لیے اس قدر جدید گھر بنائے گے ہیں کہ ان میں سے بعض میں کالج کی اجازت سے ڈپٹی کمشنر اور دیگر رہائش پذیر ہیں۔اس کالج میں ایف اے، ایف ایس سی کے داخلے بھی آن لائن ہوتے ہیں جو ہماری بعض جامعات بھی اب تک نہ کر سکیں۔اس سے اس علاقے اور شہر کی ترقی کا اندازہ ہوتا ہے۔اس شہر کے عقب سے ہو کر پورا شہر ایک ویلی کی شکل میں نظر آتا ہے۔سوات پورا ہی نائن الیون کے بعد مشکل کا شکار رہا۔کچھ سال پہلے پاک آرمی نے یہاں آپریشن کیا اور اب نہ صرف کاروبار میں وسعت آ ری ہے بلکہ سیاحت کے شعبہ میں ترقی ہو رہی ہے۔اس شہر کا ایک حصہ دریا کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے یہاں کئی ہوٹل اور ریسٹورنٹ بنائے گے ہیں جہاں رات گے تک مجمع رہتا ہے۔مینگورہ آڑو کے پھل کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے۔اور یہاں آڑو بہت ہی سستا ہے۔ایک بات جو پورے مالا کنڈ ڈویژن کی منفرد ہے کہ یہاں نان کسٹم گاڑیاں رکھنے کی قانونی اجازت ہے۔اوران ریاستوں کے الحاق کے وقت معاہدہ میں یہ چیز شامل ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ ٹیکس نہیں لے گی۔ان گاڑیوں کو NCP کی نمبر پلیٹ لگائی جاتی ہے یعنی نان کسٹم پیڈ،اور ان گاڑیوں کا ریکارڈ محکمہ ایکسائز اپنے پاس رکھتا ہے لیکن ٹیکس وصول نہیں کرتا۔انتہائی قیمتی گاڑیاں آدھی قیمت میں مل جاتی ہیں لیکن انہیں مالا کنڈ ڈویژن سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں۔اب حکومت پاکستان نے سال2023 تک ایمنسٹی اسکیم لانے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ان گاڑیوں کو لیگل کر کے قانون کے دائرے میں لایا جائے۔شام گئے ہم لوگ واپس تیمرگرہ سے ہوتے ہوئے براستہ موٹر وے پنڈی کی طرف روانہ ہوئے اور تین گھنٹے کے بعد اپنی منزل پر پہنچ گے۔رات عمران عزیز کے ساتھ ان کے گھر ہی قیام کیا۔ایک دفعہ پھر انہیں خدمت کا موقع دیاجوکسی قسمت والے کو ہی ملتا ہے اور یوں یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔