اسرار احمد
عام طور پر لوگ مقدمہ سول عدالت میں دائر کرتے ہیں اور وکیل کا بندوبست بھی کرتے ہیں، چوں کہ وکیل کی میری استطاعت نہیں اور صبرِ ایوبؑ کا مالک بھی نہیں ہوں، لہٰذا سوچا کیوں نہ اس عدالت یعنی میڈیا کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے جس کے لیے کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں، البتہ اپیل اور دلیل کی ضرورت ضرور ہوتی ہے۔
آج کے دور میں میڈیا کا علم کس کو نہیں۔ صحافت کی اہمیت و افادیت سے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اور بے بس عوام کے جذبات کی ترجمان ہے۔ جمہوری حکومت میں صحافت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی جمہوری حکومت میں عوام کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اور نظم و ضبط کے نفاذ کے لیے تین ادارے ہوتے ہیں: مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ۔ ان تینوں اداروں کی سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ضروری اور لازمی ہے۔ صحافت کے بغیر ان مذکورہ اداروں کا جمہوریت پسند ہونا مشکوک ہوجاتا ہے۔ صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوامی ادارے اس کے احترام پر مجبور ہوتے ہیں۔ آمدم برسرِ مطلب،
محترم صحافی حضرات !
بحیثیت ایک صحافی اور سوات کے باسی ہونے کی وجہ سے یہ آپ سب کا فرض بھی ہے اور حق بھی کہ آپ لوگ اپنے آپ کو سوات کے طول و عرض میں قومی مسائل سے نہ صرف باخبر رکھیں بلکہ اس کے حل کے لیے اپنا کردار بھی ادا کریں۔ کیوں کہ صحافی حضرات، قوم کی آنکھیں ہیں اور ان کا کام مسائل کو ارباب اختیار کے سامنے لانا ہے، جس کا حقیقی مقصد ان مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ آج میں آپ تمام صحافی حضرات کے سامنے سوات کا ایک اہم مسئلہ جوں کہ بجلی کا ہے رکھ رہا ہوں، جس سے بحیثیت ایک صحافی آپ خوب واقف ہیں۔ میں بذاتِ خود اس مسئلے کا باریک بینی سے مطالعہ کر رہا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے باقی حصوں میں بجلی کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے اور سیکڑوں میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو چکی ہے، لیکن ملاکنڈ ڈویژن اور خاص طور پر سوات میں حالت مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ملک میں بجلی کی بڑھتی پیداوار کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ حالاں کہ سوات کی ریکوری جو ستّر اسّی فیصد سے اوپر ہے، اُسی حساب سے سوات میں لوڈ شیڈنگ بالکل نہیں ہونی چاہیے، لیکن صورتحال یکسر الٹ ہے۔
اس حوالے سے پہلے بھی کافی لکھ چکا ہوں، تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا۔ صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ پیسکو حکام کے مطابق سوات کو آنے والی مین ٹرانس میشن لائن آج کی بجلی ضروریات کے حوالے سے کافی نہیں۔ اس ضرورت کے مدِنظر چکدرہ میں 220 کے وی گرِڈ پر بھی کام جاری ساتھ میں یہ سننے میں آیا ہے کہ چکدرہ سے سوات آنی والی ڈبل سرکٹ لائن پر بھی کام جاری ہے، لیکن ایک یا دو جگہ پر کسی نے سٹے آرڈر لیا ہے، اس بات میں کتنی حقیقت ہے؟ یہ تو مجھے نہیں پتا، البتہ یہ ضرور پتا ہے کہ سوات کی بجلی کے موجودہ نظام کو بہتر (اپ گریڈ) کیے بغیر بجلی کا مسئلہ حل ہونا ممکن نہیں۔
لہٰذا میں ان سطور کی وساطت سے سوات کے تمام صحافی حضرات کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے بارے میں تحقیق کریں اور جو بھی ’’فائنڈنگز‘‘ ہوں، ان کو قوم کے سامنے لائیں۔ آیا اس منصوبے پر کام جاری ہے کہ نہیں؟ اور کام کی رفتار اور معیار کیا ہے؟ اس طرح کیا آنے والی گرمی میں ہمیں ریلیف ملے گا یا پچھلے سال کی طرح پھر وہی بارہ سے لے کر چودہ اور سولہ گھنٹے تک ہمیں اوور لوڈنگ کے نام پر لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا؟
امید ہے اس حوالہ سے سوات کی صحافتی برادری اپنا کردار ضرور ادا کرے گی۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین۔