فضل ربہ راہی

شیر افضل خان نے 1925ء میں سوات کے مشہور اور تاریخی گاؤں بریکوٹ میں مہابت خان کے ‏ہاں آنکھ کھولی۔ والئی سوات سے ناراضگی کی وجہ سے اپنی جنم بھومی سوات کو خیر ‏باد‎ ‎کہہ کر روشنیوں کے شہر کراچی چلے گئے۔ کراچی میں مقیم اہل سوات کی تنظیم ‏‏’’مجلس پختون‘‘ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انھوں نے وہاں پختونوں کے حقوق ‏کے لئے ایک توانا آواز بلند کی۔ بعد ازاں کراچی سے انگلینڈ منتقل ہوگئے اور وہی کے ‏ہوکررہ گئے۔ مگر انگلینڈ میں بھی انھیں پختون قوم کی محرومیوں نے ایک پل چین سے ‏بیٹھنے نہیں دیا اور ہر فورم پر پختونوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔

‏انھیں لندن جیسے مصروف ترین شہر میں خان عبدالغفار خان، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ‏خان عبدالقیوم خان اور خان عبدالولی خان وغیرہ جیسی نامی گرامی شخصیات کی ‏میزبانی کا شرف حاصل رہا۔

بریکوٹی صاحب اردو اور پشتو میں شائع ہونے والی دس کتابوں کے مصنف تھے اور ‏گزشتہ 60 سالوں سے برطانیہ میں مقیم تھے۔ اس دوران انھوں نے وہاں ایک متحرک ‏زندگی گزاری۔ مطالعہ اور تصنیف و تالیف تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ہی لیکن انھوں نے ‏وہاں ایک بھرپور سماجی زندگی بھی گزاری۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں خصوصاً ‏پختونوں کے لئے ان کی بڑی خدمات ہیں۔ علم و ادب کے حوالے سے ان کی تصنیفی ‏خدمات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے ان کا نام تا دیر ‏زندہ رہے گا۔

آج میرے محسن اور مشفق بزرگ شیر افضل خان بریکوٹی صاحب ایک طویل اور فعال ‏زندگی گزارنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)

‏اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے، ان کی روح کو ابدی سکون سے نوازے اور ‏ان کے پس ماندگان اور چاہنے والوں کو صبر جمیل دے۔ آمین