ریاض احمد حیران
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ کرونا ایک خطرناک وائرس ہے، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ بھی ہمیں بار بار تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا سبق دے چکی ہے۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے، ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھونے اور گھروں سے نہ نکلنے کی ترغیب بار بار دی جا رہی ہے۔
مگر قارئین، اس موقع پر مَیں آپ سب کی توجہ ایک ایسی مخلوق کی طرف راغب کرنا چاہتا ہوں، جو اس آفت کے دور میں کسی کی نظر میں نہیں۔ کچھ دن قبل جب انتظامیہ کی طرف سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا، توسب کچھ یک دم منجمد ہوگیا۔ مَیں بازار سے اپنے گھر کی سمت روانہ ہوا، تو مینگورہ کے علاقہ حاجی بابا روڈ کے ہمراہ ایک کھنڈر نما مارکیٹ میں لوگوں کے ہجوم پر نظر پڑی۔ مَیں حق دق رہ گیا کہ اتنے سخت لاک ڈاؤن میں یہ لوگ آخر کر کیا رہے ہیں؟ اس سوال نے مجھے ان کی طرف راغب کیا۔ پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بوڑھے، جوان اور بچے ہر عمر کا ہیرونچی اپنی دھم میں لگا ہے۔ مَیں وہاں سے الٹے پاؤں مینگورہ تھانے کی جانب بڑھا۔ نشاط چوک پہنچ کر مَیں نے پولیس کا پورا عملہ وہاں کھڑا پایا۔ جب مَیں نے ان کو یہ ماجرا سنایا، تو میرے دوست اور عزیز شہزاد عالم پاپا بھی وہاں پر موجود تھے۔ انہوں نے وہاں سے اے سی کو فون ملا کر ساری صورتِ حال سے انہیں آگاہ کیا۔ اور کہا کہ اے سی صاحب ان افراد کو جلدی سے وہاں سے اٹھا کر علاج کے لیے ”نوے جوند“ ہسپتال منتقل کیا جائے۔عین نوازش ہوگی۔ بہرحال اتنا ہوا کہ پولیس نے اپنی کارروائی احسن طریقے سے پوری کی۔
قارئین، میری اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ نشئی افراد بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ ایسی نازک صورتحال میں ان کو باہر چھوڑنا ہم سب کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ان لوگوں میں عام لوگوں کی نسبت قوتِ مدافعت زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے، اور ان کو کرونا جیسے خطرناک امراض لگنے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے، تو مَیں اپنی انتظامیہ سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ براہِ کرم ان دنوں ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے، تاکہ اس سے باقی معاشرہ بچا رہے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!