سلیمان ایس این
وادئی سوات جسے پاکستان کا سویٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے، اس حسین وادی کا چپہ چپہ خوب صورت اور دلکش ہے۔ تب ہی تو جہاں بھی نظر جائے، ایک سے بڑھ کر ایک نظارہ دل کو چھوتا ہے۔ قدرت نے اس وادی کو بڑی فیاضی سے نوازا ہے۔
وادئی سوات، جہاں دلکش نظارے، سہانا موسم، گنگناتی آبشاریں، ٹھاٹھیں مارتا دریا اور ہزاروں سال پرانے بدھ مجسمے، کھنڈرات، سٹوپاز سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس حسین وادی میں موسم جیسا بھی ہو، لیکن یہاں سالہا سال سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔
اس حسین وادی کو دیکھنے کے لیے ملک بھر سے سیاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں اور جنت نظیر وادیوں میں بسیرا کر نے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کالام، مد ین، ملم جبہ، گبین جبہ،جاروگو، میاندم، مرغزار اور دیگر تفریحی مقاما ت تو سیاحوں کا مرکز ہی بن جاتے ہیں، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ رواں سال موسمِ بہار تو آیا ہے، لیکن کورونا نامی ایک مہلک وائرس نے سیاحت کے شوقینوں کی دیوانگی پر غلبہ پالیا ہے۔ جس میں بے احتیاطی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس وقت دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں بہار کے رنگ ہر سوں پھیلے نظر آرہے ہیں، لیکن ان رنگوں کو دیکھنے سے سیاح تو درکنار مقامی لوگ بھی قاصر ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا کی دیگر صنعتوں کی ساتھ ساتھ سوات کی سیاحت کو بھی بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔
کورونا وائرس کے موجودہ بحران میں سیاحت سے منسلک درجِ ذیل شعبہ جات اور کاروبار بُری طرح متاثر ہونے جا رہے ہیں:
٭ ہوٹلوں کی صنعت:۔ شمالی علاقہ جات کے تقریباً 70 فیصد لوگوں کا روزگار ملکی سیاحت پر منحصر ہے۔ ان میں زیادہ تر افراد ہوٹلنگ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف وادئی سوات میں 400 سے زیادہ ہوٹل بہار کے اس خوبصورت موسم میں بند پڑے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے موجودہ صورتحال میں ان ہوٹلوں سے وابستہ ہزاروں خاندان مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق موجودہ حالات کا اثر نہ صرف ان ہوٹلوں میں کم تنخواہ پر کام کرنے والے بیرے، خاکروب، باورچی اور دیگر عملے پر پڑے گا، بلکہ سالانہ بنیاد پر لیز پر لینے والے اور بینکوں سے قرضہ لینے والے ہوٹل مالکان کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
٭ ٹور آپریٹرز:۔ پورے ضلع میں گرمیوں کے سیزن سے آپریٹروں کو اتنا منافع ہوجاتا ہے کہ سال بھر کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں، لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے اگر گرمیوں کا سیزن متاثر ہوتا ہے، تو سب سے زیادہ نقصان اس شعبے میں نئے آنے والے نوجوان کاروباری طبقے کو اٹھانا پڑے گا، اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اس کام کو شائد چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو سیاحت کے شعبے میں آنے والے تمام افراد کی یقیناحوصلہ شکنی ہوگی۔ اس طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔
٭ ٹرانسپورٹ:۔ سوات کے سیاحتی علاقوں مہوڈنڈ جھیل، ملم جبہ، مدین، کالام، بحرین اور گبرال میں ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے والی گاڑیوں کے ہزاروں ڈرائیوروں کو جب کوئی سواری نہیں ملے گی تو ان کے لیے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا مشکل ہوجائے گا۔
٭ ٹراوٹ فیش فارم:۔ سوات میں ٹراؤٹ مچھلی فارموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ افراد کا انحصار بھی سیاحت کے شعبے پر ہوتا ہے۔ اب جب کہ سیاحت کم ہوگی، تو اس کی کھپت میں بھی کمی ہوگی اور یوں جن جن افراد کا روزگار اس سے وابستہ تھا، ان پر بھی اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس لیے ان سطور کو حتمی انجام تک لے جانے سے پہلے حکومت وقت سے گذارش ہے کہ وہ تمام ٹور آپریٹرز کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے اور اس شعبے سے وابستہ پورٹرز، گائیڈز، ڈرائیورز اور ہوٹل میں کام کرنے والے دہاڑی دار افراد کو یاد رکھے۔اگر ایسا نہ ہوا، تو مستقبل قریب میں یہ بلاشبہ ایک انسانی المیہ ہی شمار ہوگا۔