تصدیق اقبال بابو
قارئین ٹھہرجایئے! اس سے پہلے کہ آپ مجھ پہ کسی بھی قسم کا لیبل تھوپیں، فتویٰ لگائیں یا کوئی اور الزام دھریں میں اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہوں۔ جی ہاں! میرے آج کے عنوان کو دیکھ کر کچھ ’’صاحبِ بصیرت‘‘ احباب کا ماتھا ضرور ٹھنکا ہوگا کہ یہ عنوان تو استادی فضل مولا زاہدؔ کے ایک مضمون کا تھا، اور یہ اُن کی کتاب ’’خداگواہ‘‘ میں چھپ بھی چکا ہے۔ تو حضور! آپ کا گلہ بجا ہے، برحق ہے۔ میں آج اسی مضمون کا چربہ اُتارنے والا ہوں۔ میرے آج کے ممدوح بھی ہمارے خان جی فضل مولا زاہدؔ ہی ہیں۔ اس پہ کچھ یار لوگ یہ بھی کہیں گے کہ تمہیں کوئی اور نہیں ملتا کہ دھڑا دھڑ تیسرا کالم مذکورہ کتاب اور صاحبِ کتاب پہ لکھے جارہے ہو۔ مجھے یہ بھی دھڑکا ہے کہ پروفیسر فضل کبیر صاحب کہیں مرزا داغ دہلوی کا یہ شعر مجھے میسنجر پہ نہ بھیج دیں کہ
یوں ہر وقت پڑھے جاتے ہیں کیوں داغؔ کے اشعار
کیا تم کو کوئی اور سخن ور نہیں ملتا؟
اب کیا کیجیے کہ اُن کی کتاب میرے سرہانے پڑی رہتی ہے۔ جب بعض ’’بد ذائقہ‘‘ کتابیں میرے منھ کا ذائقہ حد سے زیادہ ہی خراب کردیتی ہیں، تو میں خان جی کی کتاب ’’خدا گواہ‘‘ کا کوئی مضمون پڑھ کر ’’شوگر لیول‘‘ بحال کرلیتا ہوں۔ آج بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، لہٰذا اُن کا مضمون ’’چل جھوٹے‘‘ پڑھ کر طبیعت کی بے قراری کو قرار آگیا۔ سوچا اپنے قارئین کو آج پھر خان جی کی تحریر کی چاشنی سے کچھ ’’ریوڑیاں‘‘ چکھوا کر اُن کا شوگر لیول بھی درست کردوں۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھے کچھ بھی کہیں میں اقرار کرتا ہوں کہ آئندہ اس کتاب پہ کوئی کالم نہیں لکھوں گا۔ کیوں کہ اس سے پہلے ’’سوات ادبی سانگہ‘‘ نامی اِک تنظیم پہ میں نے تابڑ توڑ نصف درجن سے زائد کالم لکھ ڈالے تھے، جس پہ ’’یار لوگوں‘‘ نے مجھے اُن کا ’’میر منشی‘‘ تک کہنا شروع کردیا تھا۔ پر کیا کرتا کہ میری عقیدت اور محبت جو تھی۔ بیچ میں کچھ انہوں کچھ پرایوں نے ایسا زہرِ ہلاہل گھولا کہ غیر محسوس انداز میں ہم سب ہی اپنی موت مرگئے۔ جس کا مجھے آج بھی دُکھ ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔ خان جی نے مذکورہ مضمون اپنی واحد شریکِ حیات کے متعلق لکھا ہے۔ جس میں کہیں اپنی مکاری اور عیاری کا خود ہی خانہ اُڑا رہے ہیں، تو کہیں ’’اُن‘‘ کے بھول پن پہ بھی زیرِ لب طنزیہ ہنسی ہنس کر قاری کو ہنسارہے ہیں۔ اس مضمون میں خان جی کی ساری ہیکڑیاں، عیاریاں اور مکاریاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں کہ وہ کس طرح کمر درد کا بہانہ بناکر ’’فرشی بیڈ‘‘ سے برآمد ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی برملا کہتے ہیں کہ ایک خاتون کو عین جوانی میں آدھے تولے سونے چڑھے چاندی کی چکا چوند میں ورغلا اور بہلا پھسلا کر شرعی طور پر اُن کے واسطے سینچ دیا جاتا ہے۔ بعد میں وہی خاتون پورے ہاؤس میں ’’فرسٹ پرسن‘‘ اور ’’لیونگ روم‘‘ میں بقول اُن کے اُن کی ’’پڑوسن پرسن‘‘ بنتی ہے۔ یہ مقبوضہ خاتون کامیابی کے جھنڈے گاڑتی سلور جوبلی تک تو پہنچتی ہے، پھر اُس پہ زوال آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور عہدہ ’’باورچن شپ‘‘ اور پھر اُنہیں جگانے تک محدود ہو کے رہ جاتا ہے۔ وہ ہر صبح اُنہیں جگانے اور نماز کی تاکید کے لیے اُن کا ’’نک نیم‘‘ لیتی ہے، تو موصوف کبھی کمر درد، تو کبھی گلے کے عارضہ کی ’’دردیلی چیخ‘‘ کا سہارا لیتے ہیں۔ اُن کی اس بناوٹ پر کمبل میں اُن کی مکمل پاؤں بندی کی جاتی ہے۔ اوپر سے وہ ’’اوں‘‘ ’’آں‘‘ ہی کہہ پاتے ہیں۔ بالآخر وہ زچ ہوکر ’’وضو روم‘‘ تک چھلانگ لگاتے ہیں۔ پھر ناشتے میں گڑ کی چائے کی چسکیاں لی جاتی ہیں۔ ایسے میں ساری بیماریاں بھول بھال جاتے ہیں۔ اگلے احکامات کے لیے بناوٹی غصہ جھاڑتے ہیں۔ اس ’’ڈھونگی‘‘ حالت میں دکھاوے کے بلڈ پریشر کی گولی طلب کی جاتی ہے، جسے گلے کی بجائے باہر گلی کی طرف پھینک دینا تو اُن کے روز کا معمول ہے۔ یہ سب ڈرامہ بازی اُس معصوم کے ساتھ کی جاتی ہے جو اُنہیں تعزیماً ’’خان جی‘‘ کہتی ہیں جبکہ پیارسے ’’چل گنجے‘‘ بھی کہہ دیتی ہیں۔ لیکن جب خان جی کی بناؤٹی محبت کا بھانڈا کہیں بیچ چوراہے پھوٹ جاتا ہے، تو وہ اُنہیں ’’چل جھوٹے‘‘ کے القاب سے بھی یاد فرماتی ہیں۔ مثلاً مذکورہ کتاب کے انتساب ہی کو لیجیے۔ لکھتے ہیں: ’’اپنی واحدرفیقہ حیات‘‘ کے نام جس کو یہ زعم ہے کہ اگلے جہاں میں بھی میں حوروں کی طلب کی بجائے اُس کی دسترس میں زندگی کی گاڑی کے ساتھ یوں ہی کھینچا تانی کرتا رہوں گا۔
ایسے میں وہ بے چاری ’’چل جھوٹے‘‘ نہ کہے تو کیا کہے؟
قارئین! درجہ بالا پیراگراف میں میری قلمی پھرتیاں بھی شامل ہیں۔ خان جی کی خالص مزاح نگاری کے لیے اُن کی کتاب ’’خدا گواہ‘‘ پڑھیے۔ اگر مزہ نہ آئے، تو مجھے بھی کہہ دینا ’’چل جھوٹے۔‘‘