حضرت علی
قارئین کرام! پانی ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مائع ہے جو جان داروں کے لیے آب حیات ہے، جس کے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذاپانی تمام حیایت کا بنیادی حق ہے۔ ہر حکومت کی پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو صا ف شفاف اور آسان طریقے سے پانی فراہم کرے۔ یہ تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے الیکشن سے پہلے ہمارے سیاسی مداری بھی الیکشن لڑتے وقت بنیادی سہولیات کی بلاجھجھک فراہمی یقینی بنانے کے وعدے کرتے ہیں، اور منتخب ہونے کے بعدیہ لوگ عوام سے کیے گئے وعدوں کو سیاسی وعدے سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مینگورہ شہر کے مکینوں کا یہی حال ہے کہ ان کے منتخب لوگوں نے ان سے کیے گئے وعدے بھلا دیے ہیں۔ ہر طرف سے عوام کی پانی پانی کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، لیکن ہمارے منتخب نمائندوں کو یہ سنائی نہیں دے رہیں۔ آج مینگورہ شہر کے عوام اپنے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ جناب، آپ کا باغ ڈھیری سے مینگورہ شہر کے لیے پائپ لائن کے ذریعے پانی کا وہ ”منصوبہ“ کہا گیا؟ آپ نے الیکشن لڑنے کے دوران میں جو عوام سے وعدے کیے تھے، وہ کہاں گئے؟ شائد آپ انہیں بھول چکے ہیں؟
قارئین! گذشتہ حکومت سے عوام پر ”واسا“ جیسا امتیازی سلوک روا رکھنے والا محکمہ مسلط کیا گیا ہے۔ اس ادارے کی اولین ترجیح پانی کی فراہمی اور سیورج کے نظام کو بہتر بنا نا تھی، لیکن ذکر شدہ دونوں ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں یہ ناکام ہوگیا ہ۔ ہاں، بلنگ وصولی کے سسٹم میں یہ ادارہ کافی حد تک کامیاب ہے۔ کیوں کہ کہ آج کل یہ تقریباً سوفیصد بل وصول کر رہا ہے۔ آئندہ کے لیے واسا کا منصوبہ ہے کہ جن گھروں میں اس کے پانی کا نلکا نہ ہو، وہ تب بھی صفائی اور سٹریٹ لائٹ کی مدمیں بِل وصول کرے گا۔ اگرچہ صفائی ہو یا نہ ہو، سٹریٹ لائٹ ہو یا نہ ہو، مگر بل سو فیصد ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ عدالتوں کے چکر کاٹنے کے لیے تیار رہیں۔
واسا کے خالی نلکوں پر عوام کو سات آٹھ ماہ کے بل ایک ساتھ بھجوائے جاتے ہیں۔ ایک غریب دہاڑی دار مزدور کا بل اگر لیٹ ہوتا ہے، تو پھر جرمانہ بھی اسے بھرنا ہوتا ہے۔ واسا والوں کے رویہ کی وجہ سے سابقہ ٹی ایم اے کو اب لوگ دعائیں دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔