ھغہ زڑہ بہ محترم لکہ حرم وی
چی کوم زڑہ کی دَ بشر دَ مینی غم وی
قارئین کرام! آصف خان مرزا مرحوم کا یہ شعر انسانیت، بشریت کے حساس پردوں میں سمویا ہوا ہے۔ آہ، افسوس صد افسوس کہ محمد آصف خان مرزا کو اس فانی دنیا سے گئے ہوئے 18 برس بیت گئے۔ آج اُن کے شعری مجموعے کو دیکھ کر میرے دل و دماغ کو پرانی یادوں نے جھنجھوڑ دیا۔ کیا انسان تھے۔ ایک محنتی انسان ایک خود دار انسان جو خاموشی سے اپنی تکلیفوں اور دردوں سے بھر پور دنیا میں گم رہتے تھے اور نوابوں، شہزادوں، شہنشاہوں کے درمیان رہنے کے باوجود اُسے اپنے قلم پر ناز تھا۔ وہ قلم سے حلال رزق کماکر خود اور بچوں کو کھلاتے تھے۔ اپنے ایک شعر میں اپنی خود داری کا یوں اظہار کررہے ہیں:
آصف خان ھم کہ پری فخر کوی خیر دے
د لیکوال سڑی جائیداد خو خپل قلم وی
آصف خان مرزا سے میرے دیرینہ تعلقات تھے۔ میری تمام زمینوں، جائیداد کی خرید و فروخت کا کام اُن کے ذمے تھا۔ رجسٹریاں، اقرار نامے، عدالتی درخواستیں، غرض سب لکھنے کا کام وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے تھے۔ وہ اپنے کام میں بلا کے ماہر تھے۔ فارغ اوقات میں ہم دنیا بھر کی باتیں کرتے تھے۔ اُن کی دوستی مجھے میرے والد صاحب سے وراثت میں ملی تھی۔ وہ ایک ذہین اور نفیس انسان تھے۔ بہ قول عثمان اولس یار کے اُن کا اپنا ایک لائف سٹائل تھا۔ کوئی بھی انسان اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
وہ مجھے اور میرے دوست شیر نواب کو بہت چاہتے تھے۔ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے جب میں سات سال لمبی مسافری کے بعد وطن آیا، تو میرے دوست شیر نواب نے کہا کہ آصف خان لالا تمہیں بہت یاد کرتے ہیں، مَیں اور شیر نواب اُن سے ملنے اُن کے گھر گئے۔ کیوں کہ وہ سبک دوش ہوچکے تھے۔ اُنہوں نے دیر تک مجھے گلے سے لگائے رکھا، بہت خاطر مدارت کی۔ اُنہیں معلوم تھا کہ مجھے کتابوں سے لگاؤ ہے۔ چند قیمتی اور تاریخی کتابیں مجھے دیتے ہوئے کہا کہ ”روح الامین مجھے پتا ہے کہ تم کتابوں کے قدر دان ہو، لہٰذا میں نے یہ کتابیں تمہارے لیے ایک عرصے سے سنبھال کر رکھی ہیں۔ تم اس کے صحیح حقدار ہو، آج بہ خوشی تمہیں یہ دیتے ہوئے میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا محسوس کررہا ہوں۔“ مَیں بھاری دل سے اس سے رخصت ہوا اور جب دو سال مسافری کے بعد شاید 2001ء یا 2002ء کو وطن واپس آیا، تو وہ اس دنیا سے کوچ کرچکے تھے۔ مَیں اپنے دوست شیر نواب کے ساتھ فاتحہ کے لیے گیا، بیٹوں سے تعزیت کی۔میرے کانوں میں بار بار ان سے رخصتی کے وقت یہ الفاظ گونج رہے تھے: ”یار، اچھی طرح گلے ملو، زندگی کا کیا بھروسا، شاید اگلی بار میں نہ ملوں۔“

محمد آصف خان جیسے انسان کبھی دلوں سے نہیں نکلتے، لیکن اس کتاب نے اُنہیں گویا دوبارہ زندہ کردیا۔ ہمارے دلوں میں اُن کی یادوں کو زندہ کیا۔ مجھے اس کتاب کے دیکھنے سے بے انتہا خوشی ہوئی۔ اتنی خوشی کہ میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ اُن کا سنجیدہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آنے لگا۔ ”سوات ادبی ملگری“ کے جنرل سیکرٹری سمیع اللہ گرانؔ کا یہ واقعی بہت بڑا کارنامہ ہے، اُس نے ہم نظریاتی دوستوں اور پشتو ادب پر بڑا احسان کیا ہے۔ اُس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔
آصف خان بلا شبہ ایک نظریاتی انسان تھے۔ وہ غیر طبقاتی سماج پر یقین رکھتے تھے۔اُن کی تمام شاعری میں یہی ایک مقصد خوشبو کی طرح سرایت کرچکا ہے۔ جیسے کہ ہمارے دوست محقق، د انشور اور نقاد محترم عثمان اولس یار اس کتاب پر اپنے تمہیدی دیباچے میں رقم طراز ہیں: ”آصف خان کی شاعری مجموعی طور پر مقصدی شاعری ہے۔ اُس نے سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے خلاف شعوری طور پر انقلابی نعرہ لگایا ہے۔“
دا اوچتی حویلی چی شی بربادے
ٹولی ودانی کنڈوالی بہ شی آبادے
د یزید اطاعت مہ کڑہ سر قلم کڑہ
د حسین د قربانی مقصد ہم دا دے
آصف خان مرزا نے ہمیشہ ظلم، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بات کی۔ اُنہوں نے حق کا ساتھ دیا۔ وہ اپنے وطن میں مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کی حالت کو روتے رہے۔ غریب طبقے کی حالتِ زار کو وہ اپنی نظم ”جانان جانان وطن“ میں کمال سے بیان کرچکے ہیں۔ اُن کی غزلیں، قطعات اور نظمیں تمام کی تمام عوام کے نوے فیصد طبقے کے مسائل اور تکالیف کی اردگرد گھومتی ہیں۔ کیوں کہ وہ خود اُسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے، اور اُنہیں ایک عام پاکستانی کے مسائل کا بخوبی احساس تھا۔ یہی احساس اُن کی تمام شاعری کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اُس کی نظم ”دَ اختر میلہ“ اُس میلے کی یاد دلاتی ہے، جب والیِ سوات کے زمانے میں ایوب برج کے پاس دریائے سوات کے کنارے بڑے آن بان اور شان سے منعقد کیا جاتا تھا۔ اُس میں مشہور کنجریاں ناچتی تھیں۔ اس شاہکار نظم میں ایک طرف مال دار لوگوں کی عیش و عشرت اور دوسری جانب عام لوگوں کی حالتِ زار بیان کی گئی ہے۔
محمد آصف خان مرحوم ایک بامقصد اور نظریاتی انسان تھے۔ اُن کی شاعری بھی بامقصد اور نظریاتی ہے۔ وہ عام قاری کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ بے فکروں کو فکر دیتی ہے۔ سوتے ہوئے انسانوں کو جگاتی ہے۔ شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کو ایک مقصد کی نشان دہی کرتی ہے۔ وہ آصف خان لالا کی دکھی دل کی آہ ہے، اور اُن کے الفاظ ہر غریب کے آنسوؤں کی لڑی ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ مَیں اس تحریر میں محمد آصف خان کی شخصیت کے تناظر میں ان کی شاعری کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا مَیں نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُن کے ساتھ گزاری ہوئی حسین یادوں کا ذکر کیا ہے۔ مَیں اس کتاب کے شائع کرنے پر سمیع اللہ گرانؔ کو مبارک باد دیتا ہوں، اور آصف خان لالا کے بیٹے کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے اپنے مرحوم والد صاحب کے اس قیمتی خزانے کو سنبھال کر رکھا تھا۔
مجھ ناچیز تک کتاب پہنچانے کے لیے سمیع اللہ گرانؔ اور تصدیق اقبال بابو دونوں کا ازحد مشکور و ممنون ہوں۔