ساری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ بنیادی معیشت، تعلیم، مواصلات، صحت، ٹورازم اور گورننس سب کچھ تباہی کی جانب گامزن ہے۔درحقیقت مملکتِ خداداد کو اس کے علاوہ بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ چاہیے وہ گڈ گورننس ہو، امن و امان کی صورتحال ہو، داخلہ اور خارجہ تعلقات ہوں، ادارہ جاتی معاملات اور حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات ہوں، اتحادی اور اپوزیشن پارٹیوں کا حکومت پر عدم اعتماد ہو، یا غریب دشمن بجٹ کے اعداد و شمار ہوں، کہیں پر بھی حکومت کو اطمینانِ قلب نصیب نہیں ہوسکی۔ سب کچھ ہی ٹھیک نہیں۔ حکومت عوامی مسائل کو نمٹانے میں بری طرح ناکام ہورہی ہے۔ سارے ادارے بشمول ہسپتال تباہی کے دھانے پر ہیں۔ کورونا کے علاوہ ہزاروں لوگ مرکھپ رہے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں لوگ بغیر حفاظتی ماسک کے اور انفیکٹیڈ ہوکر بازاروں اور مارکیٹوں میں گھوم رہے ہیں۔ ایس او پیز کا کیا حشر نشر ہوچکا، اس کا تذکرہ کرنا بے کار ہے۔ البتہ حکومت کو معیشت کی فکر کھائی جا رہی ہے۔یہ اچھی بات ہے۔ ہسپتالوں میں ادویہ ہیں، اور نہ ڈاکٹروں کے لئے حفاظتی سامان ہی موجود ہے۔ کورونا ایمرجنسی کے علاوہ ہسپتال عملاً بند ہیں۔ او پی ڈی بند ہے، یا پپھر ہفتہ میں دو دن کے لیے ہی او پی ڈی ہوتی ہے۔ مریض ڈاکٹر، صحت، دوا، لیبارٹری اور علاج کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ کسی کو کسی کی فکر نہیں۔ اپنے مریضوں سے لوگ بھاگ رہے ہیں۔ حکومتی تیاری پہلے تھی نہ اب ہے۔ ہر طرف بے چینی اور پریشانی کے سائے ہیں۔ گھبراہٹ سے لوگ نفسیاتی عوارض کا شکار ہوچکے ہیں۔کبھی اس طرف بھی خیال کیا ہے کہ کورونا کے علاوہ اور بھی امراض ہوتے ہیں، جب کہ پہلے سے دیگر موجود امراض میں ایزادگی ہوچکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کورونا کی شرحِ اموات سے زیادہ لوگ عام بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ کورونا سے زیادہ لائف اسٹائل امراض جیسے شوگر اور بلڈ وغیرہ سے لوگ پریشان و ہلکان ہورہے ہیں۔ ان کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ کہاں جائیں، کہاں صحت کا انصاف تلاش کرے؟ ڈاکٹر کام کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہسپتال ویران ہوگئے ہیں۔ یہ تو وہ بات ہوگئی جیسے یہاں مریض کبھی ہوتے نہ تھے۔ پرائیویٹ ہسپتال بھی بند ہیں، تاہم اس میں کچھ کام چوری چھپے کیے جاتے ہیں۔ ان کا بھی قصور نہیں۔ ہفتے میں تین دن سمارٹ لاک ڈاؤن ہوتا ہے۔ لیبارٹریاں بند ہوتی ہیں۔ کورونا مذاق اور ڈراما بن چکا ہے۔ زہریلے انجکشن لگائے جانے کا واویلا الگ سے مچایا جا رہاہے۔ سازش، ملک اور ملت کو مٹانے کی باتیں الگ سے کی جا رہی ہیں۔ ادویہ کی بیشتر دکانیں مریضوں کی راہ تکتے رہ گئی ہیں۔ کیا سمارٹ لاک ڈاؤن میں مریض اوردیگر امراض ختم ہوگئے ہیں۔ اس کا واضح مطلب اس کہاوت کے مصداق بن گیا ہے کہ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ لیبارٹری والوں کی چاروں انگلیاں گھی میں ہیں۔ موقع پرست اس وقت کی تلاش میں تھے۔ ٹیسٹنگ کی فیس کم کرنا غور طلب ہے۔ کون زیادہ چارج کررہا ہے؟ کون سے ہسپتال غریبوں او رمالداروں کی چمڑی ادھیڑ رہے ہیں؟ غیر قانونی طریقے سے مال کمایا جا رہا ہے۔ حکومت کوذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ان بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے الگ سیل اگرچہ موجود ہے، لیکن اس کی طرف سے لوگوں میں خوف و ہراس کو کم کرنے کے اقدامات قابل ذکر نہیں۔ بیرونی ممالک سے میڈیکل ایڈ کی مد میں جتنی ادویہ آتی رہیں، وہ بازاروں اور مارکیٹوں میں بیچی جا رہی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی شفاف نظام موجود نہیں۔ میڈیا سارا دن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں تھکتا۔ ڈاکٹروں کی نصیحت بے اثر ہے۔ وزیروں مشیروں کے بے سروپا بیانات کا الگ سے ایک سلسلہ بام عروج پر ہے۔ ڈاکٹر وں سے زیادہ اتائیوں کی دھوم مچی ہوئی ہے۔تعویذ اور گنڈوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ ہربل میڈیسن، ایلوپیتھی، ہیومو پیتھی، طب نبوی اور ایوریدک علاج کے الگ الگ طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ غریب غریب تر اور مال دار مزید مال دار ہورہا ہے۔ آگاہی الٹا اثر دکھا رہی ہے۔ انصاف کا نظام اور انصاف کا پلڑا کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ نت نئے مسائل بن رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ان حالات میں جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دراصل یہ طبقاتی جنگ کا آخری مرحلہ ہے۔ کورونا اگرچہ ایک مسئلہ ضرور ہے، لیکن اس کی تیز دھار میں کمی آرہی ہے۔ اگرچہ قرائن اور ریسرچ اس کے برعکس رپورٹیں پیش کر رہے ہیں۔ دنیا نے ابھی مزید قدرتی اور مصنوعی وائرسوں کا سامنا کرنا ہے، جو کہ اس وائرس سے کئی گنا خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ آئندہ حیاتیاتی ہیں۔ لیزر ٹیکنالوجی نے روایتی ہتھیاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دنیا کو نینو ٹیکنالوجی اور تھری ڈی پرنٹر زکے زور پر چلانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ایسے میں ہماری تیاری کیا ہے؟ صفر سے بھی کم! کیا ہماری قوم میں اس کے مقابلہ کرنے کے لیے کوئی زور موجود ہے؟ ”نہیں۔“خدارا، صحت پر توجہ دی جائے۔ جدید ٹیکنالوجی پر توجہ دی جائے۔ روایتی ہتھیار خدانخواستہ ہمارے گلے پڑنے کا امکان ہے۔ نوجوانوں کو روایتی جنگوں سے ہٹ کر جدید معاشی جنگ لڑنے کا سلیقہ سمجھا یا جائے۔ سمجھنا ہوگا جدید جنگ، معاشی جنگ ہے۔ تعلیم اور صحت کی جنگ ہے۔منڈیوں تک رسائی کی جنگ ہے۔ نظریات اور جمہوریت کی جنگ ہے۔ جدید سائنس کو سمجھنے کی جنگ ہے۔
حکومت کا سارا فوکس صرف کورونا پر مرکوز ہو کر رہ گیا ہے۔ سارا زور اعداد و شمار، انفیکشن اور مرنے کی حد تک ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ صورتحال کہاں تک جائے گی۔ ہسپتالوں کے آئی سولیشن وارڈز میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے سوچا جانا چاہیے۔ اکسیجن اور وینٹی لیٹر ز کی کمی کو دور کیا جانا چاہیے۔ دراصل عام مریضوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنا عین آئینی و قانونی حق ہے۔ خدانخواستہ وائرس کے خطرات مزید گہرے ہوتے ہیں، تو اس وقت حکومت کے پاس کون سی حکمت عملی کا آپشن باقی بچتا ہے؟ اس کو واضح کرنا ہوگا اور اس حکمت عملی کو عملی طور پر لاگو کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کیا ہوں گے۔اس پر پارلیمنٹ میں بحث کی ضرورت ہے۔ قانون سازی کی ضرورت البتہ اپنی جگہ موجود ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ صوبوں کو بجٹ میں صحت کے لیے مضبوط بنیادوں پر اضافہ کرنا ہوگا کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت 71 فیصد ترقیاتی بجٹ استعمال نہیں کر سکی۔ اب یہ نا اہلی ہے کہ کفایت شعاری؟ یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔کیااس ترقیاتی بجٹ کو صحت کے شعبے میں نہیں لگایا جاسکتا؟ لوگ روزگار اور معیشت کی بحالی چاہتے ہیں۔ عوام صحت کے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ہسپتالوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور اس کو مکمل طور پر کھولنے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔