عصمت علی اخون
قارئین، سوشل میڈیا نے صحافت کو جتنا آسان بنا دیا ہے، اتنی ہی مشکلات بھی پیدا کی ہیں۔ عام لوگوں کا تو خیال ہے کہ چلو ہمیں بھی موقع مل گیا صحافتی سرگرمیوں کا، اور اب ہم بھی موبائل اٹھاکر ہر چیز کو ”کور“ کرنے کے ساتھ سے عام لوگوں تک فیس بُک اور سوشل میڈیا کے ذریعے خبر پہنچا سکتے ہیں، اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ بیشتر اوقات اسی فیس بک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ کیا واقعہ رونما ہوا ہے؟ عام لوگ ایسے اکاؤنٹس کو فالو بھی کرتے ہیں، لیکن اس کا اثر ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ معلومات یا تو غلط ہوتی ہے، یا صحافتی اصولوں اور معاشرتی اقدار کے برعکس۔ ایسی خبریں یا پوسٹ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ ایسا بھی بیشتر اوقات دیکھنے کو ملا ہے کہ معمولی سی غلطی کی وجہ سے بہت بڑا نقصان اٹھانے کو ملا ہے۔
قارئین، تحریر کا مقصد سوشل میڈیا کے نقصانات اور فائدہ بتانا ہے، جو آج کل فعال ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے مشغلے کی صورت بھی اختیار کرگیا ہے۔ موقع کی مناسبت سے سوشل میڈیا کے حوالے سے چند گذارشات آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سوشل میڈیا ہمارے لیے ایک نیا میڈیا ہے۔ اس کے استعمال سے ہماری معاشرے کی اکثریت بالکل بے خبر ہے۔
میڈیا کیا ہے؟ یہ لفظ ”میڈیم“ سے نکلا ہے۔ آپ لوگ جانتے ہوں گے کہ جہاں صحافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور لوگوں کو صحافت کے ذریعے معلومات فراہم کرنا مقصود ہوتا ہے، انہیں ایجوکیٹ کرنا ہوتا ہے، تو اس ادارے کو ”میڈیم“ کہتے ہیں۔ اب اس دائرہ میں ریڈیو، اخبار اور الیکٹرانک میڈیا سب کچھ آتاہے۔ پھر ان اداروں میں الگ الگ شعبہ جات ہوتے ہیں، مثلاً رپورٹنگ سے لے کر گیٹ کیپنگ، ایڈیٹنگ اور مارکیٹنگ وغیرہ۔
اب تو خیر سے سوشل میڈیا پر بھی لوگ اچھی خاصی ویب سائٹس اور سوشل پیج صحافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، جنہیں بھی ہم ”میڈیم“ کہہ سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ یعنی انٹرنیٹ پر ہونے والی میڈیا کی سرگرمیوں کو سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔
قارئین، اب بات صحافت کی ہے اور عام لوگوں کی ہے۔ صحافت ایک شعبہ ہے جہاں صحافی طریقہ سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ باقاعدہ ایک پراسس سے صحافی گزرتے ہیں، یا تو یونیورسٹیوں سے صحافتی تعلیم حاصل کرکے عملی صحافت کرتے ہیں، یا ان صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک ہو کر صحافت کی حساسیت، اصولوں، قواعد و ضوابط اورمعاشرتی اقدار سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ تبھی اپنی خدمات اور ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔
اب نئے میڈیا کی طرف آتے ہیں جسے ہم ”سوشل میڈیا“ کہتے ہیں۔ یہ میڈیا آج کل بہت فعال ہے۔ اسی فعالیت کی وجہ سے میڈیا کے بڑے بڑے اداروں نے سوشل میڈیائی پیج کھول کر اپنی آواز اور اپنے پروگرام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا شروع کردیے ہیں اور وہ معلومات ان کی توقعات سے بڑھ کرلوگوں تک پہنچتی ہیں۔ کیوں کہ آج کل اگر آپ دیکھیں، تو ہر دوسرے شخص کے ساتھ اینڈرائڈ موبائل ہے، یعنی اس کے ہاتھ میں چھوٹا ٹی وی ہے۔ اب وہ جب اور جہاں چاہے کچھ بھی دیکھ سکتا ہے، اور اس سے معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ اب ہر میڈیم کے لیے سوشل میڈیائی پیج رکھنا ضروری ہے۔ یہ اچھا قدم ہے۔ کیوں کہ صحافت سے وابستہ لوگ ہی عوام کو حقیقی معلومات دے سکتے ہیں اور انہیں ملکی اور بین الاقوامی حالات سے باخبر رکھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ کچھ صحافت سے بے خبر عام لوگ بھی اس دوڑ میں لایکس اور فالوورز بڑھانے کے لیے لنگوٹ کس چکے ہیں۔باقاعدہ ہر چیز کو خبر کی شکل دے کر عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں غلط تاثر بھی پھیلا رہے ہیں، جو معاشرے کے لیے بہت بڑے نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
قارئین، یہ آج کل بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگر اس کو کنٹرول نہ کیا گیا، تو یہ نہ صرف صحافت بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اب جن لوگوں کو صحافت کا علم نہیں، تو ان کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کو صحافت کی غرض سے استعمال نہ کریں۔ سوشل میڈیا پر صرف صحافت نہیں ہوتی اور بھی بہت کام کیے جاسکتے ہیں، جس سے عام معاشرے کو فائدہ ہوگا۔ اگر عام لوگ چاہتے ہیں کہ وہ بھی صحافت کریں، تو ان کو چاہیے کہ پہلے صحافت کے حوالے سے جان کاری حاصل کریں۔ صحافت کیا ہے، اسے کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کسی ادارے کے ساتھ کام کریں، تو ہی ان کو معلوم ہوگا کہ لوگوں کو کیسے معلومات دینی ہیں۔ میری گذارش ہوگی کہ ہم متاثر لوگ ہیں، اور جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں ہمیں اتنی معلومات نہیں ہیں۔ لہٰذا پہلے اس ٹیکنالوجی کو سمجھنا ہوگا، جاننا ہوگا۔ پھر کہیں جا کر اس پر کام کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم اپنا حلیہ بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے پورے معاشرے کا حلیہ بگاڑکر رکھ دیں گے۔
دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ فیس بک پر کچھ دینے سے اسے بظاہر تو ڈیلیٹ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کی ریکوری ہوا کرتی ہے۔ جیسے آپ کے موبائل کا ڈیٹا ریکور ہوسکتا ہے، تو احتیاط کی بہت ضرورت ہے۔ بس احتیاط ہی واحد علاج ہے۔