شہاب شاھین

”یہ سن2007ء کا دور تھا جب طالبان اور پاک فوج کے مابین جنگ جاری تھی۔ شانگلہ کے علاقے میں دھڑا دھڑ فائرنگ اور ماٹر گولے برس رہے تھے۔ سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر صاحب اپنے کیمرہ مین کے ہمراہ وہاں موجود ہوتے اور اپنے لوگوں کو لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے  باخبر  رکھتے۔“
قارئین، یہ کہنا ہے میرے دوست فضل خان کا۔ ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ ہو، سیلاب ہو، یا کوئی وبا ہو،تو فیاض ظفر صاحب  سوات کے صحافیوں  میں صفِ اوّل میں دکھائی دیتے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ فیاض صاحب نے سوات میں صحافت کو ایک جدید اور منفرد انداز میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اچھی اور بیلنس رپورٹنگ کی ہے، جس کی وجہ سے ان کو سوات کے قابلِ قدر صحافیوں میں شمارکیا جاتا ہے۔
اپنی قربانیوں کی بدولت آج فیاض ظفر صاحب سوات میں عزت اور مقام رکھنے والے صحافی  سمجھے جاتے ہیں۔  وہ ہمیشہ غریب طبقے کی آواز بنے، اور ہر کسی کے فن کی قدر کی، یہی ایک اچھے صحافی کا کردار ہے۔
فیاض ظفر صاحب نے 1976ء میں سیدو شریف میں محترم ظفر علی کے ہاں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقہ میں حاصل کی۔ بارہویں جماعت سے جہانزیب کالج کے میگزین ”ایلم“ سے صحافت کا  آغاز کیا۔ اس کے بعد  باقاعدہ ”روزنامہ بشارت“ میں  خدمات  انجام  دیں۔  اس کے بعد روزنامہ آزادی، ایکسپریس نیوز، آج نیوز، خیبر نیوز اوروائس آف امریکہ جیسے مؤقر اداروں میں کام کیا۔
غفور خان عادل کو صحافت میں اپنا استاد مانتے ہیں۔آج کل ”روزنامہ مشرق“ کے بیورو چیف اور وائس آف امریکہ میں رپورٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حق و صداقت کے علم بردار ہیں۔ اس لیے اگر مَیں اگر ان کو سوات کا حامد میر کہوں، تو بے جا نہ ہوگا۔ جاتے جاتے ان کے بہتر مستقبل اور اچھی صحت کے لیے دعاگو ہوں۔