ریاض خان یوسفزئی

چین میں جنم لینے والے کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں لاکھوں لوگ متاثر اور ہزاروں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انسانی جانوں کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ کورونا نے پوری دنیا کی معیشت سمیت تمام روزمرہ معاملات اور اداروں کونقصان پہنچایا۔
پاکستان میں کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مارچ میں پورے پاکستان میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری دفاتر، کاروبار سمیت تمام اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسرے اداروں سمیت تمام تعلیمی اداروں کو بند کرکے تمام امتحانات کینسل اور دوسری سرگرمیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔
مارچ ہی میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اپریل تک تعلیمی اداروں کی بندش کے فیصلے کو سراہا گیا۔ کیوں کہ حالات کے مطابق یہ ایک اچھا اقدام تھا۔ بعد میں تعلیمی اداروں کی بندش میں توسیع کرکے 15 جولائی تک تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
تعلیمی اداروں کی بندش سے طلبہ میں بے چینی بڑھی اور ان کے ذہنی دباؤ میں روزبروزاضافہ ہوتا گیا۔ جب ہائیرایجوکیشن نے آن لائن کلاسز کے اجرا سمیت دوسرے فیصلے کیے، اور یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز شروع کیں، تو طلبہ کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوا۔ انہوں نے اپنے مسائل سے حکومت اور تعلیمی اداروں سے منسلک اداروں کوآگاہ کیا۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونا خصوصی طور پر سابقہ فاٹا کے اضلاع جس میں باجوڑ، وزیرستان، اورکزئی سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں، ان کے علاوہ ملک کے اہم شہروں میں بھی انٹرنیٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک کے اکثریت طلبہ کے ساتھ سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کی سہولت موجود نہیں، اور انٹرنیٹ پیکیجز کے مہنگے ہونے کی وجہ سے طلبہ آن لائن کلاسز لینے سے قاصر ہیں۔ اساتذہ کا آن لائن کلاسز پڑھانے اور طلبہ کے لینے کا کوئی تجربہ نہیں، اور نہ ان کی کوئی ٹرنینگ ہی کرائی گئی ہے، جس کی وجہ سے طلبہ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ یونیورسٹیوں کی طلبہ سے فیس جمع کرنے کی ہدایت سے اب لوگ مزید پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ کورونا وبا سے ملک کے تمام روزگار سمیت تمام لوگ معاشی طور پر اس سے متاثر ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ فیس دینے سے قاصر ہیں۔
ملک کے تمام اداروں اور روزگار کے حوالے سے جب کوئی فیصلہ لیا جاتا ہے، تو ان کے نمائندوں کو شاملِ مشورہ کرکے فیصلہ لیا جاتا ہے، لیکن طلبہ اور تعلیمی اداروں کے حوالے سے فیصلوں میں طلبہ کو نظرانداز کرکے یک طرفہ فیصلے کیے گئے ہیں، جس پر طلبہ تنظیموں سمیت تمام طلبہ کو اعتراض ہے۔
ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے تمام طلبہ تنظیموں اور طلبہ نے ملک گیر احتجاجوں، پریس کانفرسز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر اپنے مسائل سے حکومت کو آگاہ کیا، اور اسے ان مسائل کے حل کا مطالبہ کیا۔ حکومت کی غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے تمام طلبہ تنظیموں نے آل سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا، جو کہ بیس جون کو جمعیت طلبہ اسلام کے سیکرٹریٹ میں جمعیت طلبہ اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اجلاس میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان، اہل حدیث سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان، وطن پال سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان، انجمن طلبہ اسلام پاکستان، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، اسٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ پاکستان، فاٹا سٹوڈنٹس فیڈریشن، قبائل یوتھ موومنٹ ودیگر تنظیموں کے مرکزی ذمہ داران نے شرکت کی۔
اجلاس میں طلبہ کو درپیش مسائل و مشکلات کا جائزہ لیا گیا اور ان کے حل کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کا عزم کیا گیا۔ اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ منظور کیا گیا۔ جس کی رو سے: تعلیمی بجٹ کو مسترد کیا گیا، تعلیمی بجٹ کو کل جی ڈی پی کا 4 فیصد کیا جائے،ایس او پیز کے تحت تمام تعلیمی اداروں کو کھولا جائے، طلبہ یونین کوبحال کرکے ان کا الیکشن کرایا جائے، آن لائن کلاسز کے راستے میں تمام مشکلات کا سدباب کیا جائے، فیسوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ تعلیمی اداروں کو بچانے اور طلبہ کی فیس معاف کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کو تعلیمی پیکیج کے نام سے خصوصی گرانٹ دیا جائے۔ ملک بھر کے تمام مدارس کے طلبہ کو ایس او پیز کے تحت اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کے نام پر ٹارچر سیلوں کو ختم کیا جائے۔ ایف اے/ ایف ایس سی طلبہ کے ایٹا ٹیسٹ کے حوالے سے حکومت اپنا مؤقف واضح کرے۔ حالیہ کورونا وبا کی وجہ سے حکومت کی کوئی واضح تعلیمی پالیسی نہیں۔لہٰذا جلد از جلد حکومت تعلیمی عمل کو جاری رکھنے کے لیے ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر ایک جامع تعلیمی پالیسی کا اعلان کرے۔ تمام طلبہ تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیے تمام طلبہ تنظیموں کا ایک سنٹرل کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا، جوکہ پھر تمام صوبوں ڈویژن اور ضلع کی کمیٹیاں بنائیں گی اور تحریک کوآگے لیکرجائیں گی۔
آج تعلیمی ادارے تعلیمی درسگاہ نہیں بلکہ بزنس سنٹرز بن گئے ہیں۔ غریب مزدوراور محنت کشوں کے بچوں پرتعلیم کے دروازے بند ہو رہے ہیں۔ طلبہ کی مشکلات اور مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
لہٰذا ان تمام مسائل کا واحد حل ”طلبہ یونین“ کی بحالی ہے جوکہ طلبہ کے حقوق کا ضامن ہے۔