فضل محمود روخان

ریاستِ سوات ایک ترقی یافتہ، خوش حال، پُرامن اور قدرتی وسائل سے مالا مال، پاکستان کی حدود میں ایک ریاست تھی۔ فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے ریاست کی حیثیت ختم کرکے اُسے ایک ضلع کی حیثیت دے دی تھی۔ اُس وقت یعنی 1969ء میں سوات کے خزانے سے حکومت پاکستان کو 3 کروڑ روپے منتقل ہوئے تھے۔
جب سوات ظلم، بربریت اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہر طرف خان خوانین کا راج تھا۔ کسی کی جان، مال اور عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ ایک آدمی علم و عرفان کی منزلیں طے کرتا ہوا اپنے پیدائشی وطن سوات پہنچا۔ ظالم اور سرکش لوگوں کو اپنی روحانی طاقت سے مغلوب کرتا رہا۔ علم و عرفان کے ایک چراغ سے دوسرے چراغ کو جلاتا رہا۔ یہ وقت تھا جب انگریز قریباً سارے ہندوستان پر قابض ہوچکے تھے، اور پختونخوا کے وہ علاقے جو رنجیت سنگھ کے جانشینوں کے زیر تسلط تھے، وہ بھی انگریز 1849ء میں نہایت آسانی سے لے چکے تھے۔ انگریز، زارِ روس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے اور ہندوستان کو آنے والے خطرات سے بچانے کے لیے بہادر پختونوں کے پہاڑی نشیمن پر قبضہ جمانے کے لیے منصوبے بناتے رہے۔ دوسری طرف سوات کا روحانی پیشوا اخوند عبدالغفور پختونوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کوشش میں لگا رہا اور آخرِکار وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوہی گیا۔ غالیگے سوات کا دارالخلافہ قرار پایا اور بونیر غوث کے پڑپوتے سید اکبر اسلامی شرعی حکومت کے امین ٹھہرے۔
دوسری جانب عظیم اللہ خان ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو فرنگی سامراج کے خلاف جہاد پر اُبھارتا رہا، اور پھر مئی 1857ء میں جنگ آزادی بھڑک اُٹھی۔ ہر طرف خون کی ندیاں بہیں۔ آگ کے شعلے آسمان کے دامن کو چوم رہے تھے۔ روہیلا پختون جنرل بخت خان، بہادر شاہ ظفر کی آخری مغل حکومت کے بچانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگاچکا تھا۔ دشمن کی فوجیں لال قلعے کے دیواروں تک پہنچ گئی تھیں۔ جنرل بخت خان قلعے کو بچانے کے لیے اس کی چھتوں پر توپ خانے نصب کرچکا تھا، لیکن عیاش مغل شہزادوں کو توپوں کی گھن گرج میں رات کو نیند نہیں آرہی تھی اور ان کے آرام میں خلل پڑ رہا تھا۔ آخر جنرل بخت خان کو مجبور کیا گیا کہ قلعے کی چھتوں سے توپوں کو ہٹایا جائے، لیکن بہادر پختون نے اس ناروا حکم کو ماننے سے انکار کیا اور خود لڑتا اور آگے بڑھتا ہوا جامِ شہادت نوش کرگیا۔
جب ہندوستان میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، تو سوات میں اسلامی حکومت کے سربراہ سید اکبر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انگریز مؤرخ اس بات پر گواہ ہیں اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تاریخی کتب میں رقم طراز ہیں کہ اگر سوات کی شرعی حکومت کے سربراہ سید اکبر 1857ء کے غدر کے موقع پر زندہ ہوتے، تو آج ہندوستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
لیکن قدرت نے ہندوستان کی قسمت میں طوقِ غلامی لکھ دیا تھا۔ سوات میں سید اکبر بادشاہ کی وفات سے سوات کی مرکزی حیثیت ایک بار پھر ختم ہوگئی۔ لوگوں کے بار بار اسرار پر بھی سید و غوث خود حکومت چلانے پر راضی نہ ہوئے اور سوات کے خان، خوانین اور ملک ایک دوسرے کی دشمنی میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھا، اور یوں عرصہئ دراز تک سید اکبر بادشاہ کی گدی خالی پڑی رہی۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریز سارے ہندوستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے، تو انہوں نے پختونوں کو سبق سکھانے کے لیے سرحد ی عقابوں کی سرزمین پر قدم رکھنے کی کوشش کی، لیکن ہر طرف اُن کو ناکامی پر ناکامی نصیب ہوتی رہی۔ 1863ء میں امبیلہ کے مقام پر انگریزوں سے سید و غوث کے کمان میں جو جہاد لڑی گئی۔ اُس کی شکست کے غم میں اُ س وقت کے وائسرائے ہند جاں بر نہ ہوسکے اور پختونوں کی سرزمین پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مرگئے۔ جب تک سیدو غوث اخوند عبدالغفور زندہ رہے، انگریزوں کو سوات کی جانب ترچھی نظر سے دیکھنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
1867ء میں اخوند عبدالغفور اللہ کو پیارے ہوگئے اور سوات پھر جہالت اور ظلم و بربریت کے اندھیروں میں بھٹکنے لگا۔ تا وقت یہ کہ ترکی کے غازی انور پاشا کے دست راست سنڈاکئی ملا جو کہ دیر کے رہنے والے تھے، واپس اپنے وطن آئے۔ انہوں نے پشاور کے تہکال بالا میں ایک دینی مدرسے کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھا اور عمارت کی لکڑیوں کے لیے سوات کا رُخ کیا۔ جب انہوں نے سوات کو ظلم اور سفاکی کی تاریکی میں ڈوبا ہوا دیکھا، تو تہکال بالا کے دینی مدرسے کو بھول گیا اور یہاں سوات میں اصلاحِ احوال کے لیے قیام پذیر ہوا اور آخرِکار سوات کو پھر ایک مرکز پر جمع کیا۔
اس دفعہ پھر پیر بابا کے خاندان سے سید عبدالجبار شاہ کو سوات کا نظم و نسق سونپا گیا۔ 1914ء کا زمانہ تھا، لیکن جلد ہی اُن پر قادیانی کا الزام لگاکے تخت سے اُتارا گیا اور یوں سیدو غوث کے پوتے میاں گل عبدالودود نے عنانِ حکومت اپنے ہاتھوں میں سنبھالی اور 1949ء تک سوات پر ایک مثالی حکومت کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی دورِ حکومت میں ظالم خان، خوانین کی کمر توڑ ڈالی اور بزورِ شمشیر اُن کو سیدھا رکھا۔
اب غلام ہندوستان آزاد ہوچکا تھا۔ انگریز سات سمندر پار جاچکے تھے۔ 14اگست 1947ء کو مسلمانوں کا ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے وجود میں آگیا۔ نیا دور اور نئے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں گل عبدالودود نے 12 دسمبر 1949ء کو اپنے فرزند ارجمند میاں گل عبدالحق جہانزیب کو اپنی خوشی اور رضا مندی سے سوات کی باگ ڈور حوالہ کیں اور خود اللہ کی یاد میں مرتے دم تک مشغول ہوگئے۔ اُن کی زندگی کے آخری ایام زہدو تقویٰ میں گزرے۔ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو تہجد میں گزارتے۔ کھانا پینا قریباً ترک کرچکے تھے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے اُن کو ایسا کرنے سے منع کیا، لیکن پھر بھی موت سے چند ماہ قبل کا عرصہ ایسا گزارا کہ بھوک اور پیاس میں اللہ کو یاد کرتے کرتے 1970ء میں اللہ سے جا ملے۔
جب دسمبر 1949ء میں میاں گل جہانزیب نے حکومت سنبھالی، تو انہوں نے سوات کی ترقی پر خصوصی توجہ فرمائی۔ جگہ جگہ صحت کے مراکز قائم کیے۔ پورے سوات میں سڑکوں کا جال بچھایا۔ ہر گاؤں میں سکول تعمیر کروائے جہاں زیب کالج کی بنیاد رکھی۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے والیِ سوات اپنے خرچہ پر طلبہ کو انگلینڈ اور یورپ بھیجا کرتے تھے۔ دور دراز کے گاؤں تک بجلی پہنچائی۔ اپنا ٹیلی فون سسٹم رائج کیا، جس سے عوام اور خواص دونوں مستفید ہوتے رہے۔ دریائے سوات پر جگہ جگہ بڑے بڑے پل تعمیر کرائے۔ امن و امان پر خصوصی توجہ دی۔ ”آنکھ کے بدلے آنکھ“ کے مصداق قاتل کو ایک ہفتے کے اندر اندر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ چور اور ڈاکو کا نام و نشان تک نہ تھا۔ برائے نام ٹیکس نافذ تھا جو زیادہ سے زیادہ سو روپے سالانہ تھا۔ عموماً پانچ روپے سالانہ ہوا کرتا تھا۔ البتہ عشر کا نظام سختی سے لاگو تھا۔ اور اس سے سوات کی مقامی فوج کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ ہر میٹرک پاس فرد کے لیے بغیر کسی رشوت اور سفارش کے ملازمت مہیا کی جاتی تھی۔ کوئی بے روزگار نہیں تھا۔ اگر کوئی کام کرنا چاہتا تھا، تو اس کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رہتے۔ ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ تھا، اور مزے کی بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ سوات کے اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر کیا جاتا تھا۔
پھر زمانے نے کروٹ بدلی۔ جنرل آغا یحییٰ خان نے اپنے مارشل لائی دورِ حکومت میں 28 جولائی 1969ء کو سوات کے ریاستی نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ والیِ سوات سے ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ نے چارج لے لیا۔ یوں سوات کو ایک ضلع کی شکل دے دی گئی۔ یحییٰ خان کا ادغام کا فیصلہ ایک طرفہ تھا جس میں عوام کی اکثریت کی رائے شامل نہیں تھی۔ اس لیے ریڈیو پر تقریر سنتے ہی سوات کے عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ کاروباری ادارے یک دم بند ہوگئے۔ گھروں اور دکانوں پر کالی جھنڈیاں لہرانے لگیں۔ اُسی دن گراسی گراؤنڈ میں سوات کے عوام نے ایک بڑے جلسے میں یحییٰ خان کے فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی اور ان کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا۔ بعد میں لوگ والئی سوات کے محل کی طرف جلوس کی صورت میں روانہ ہوئے۔ ”والیِ سوات زندہ باد“، ”یحییٰ خان مردہ باد“ کے نعرے لگانے لگے۔ ہر کوئی مشتعل تھا اور اپنے اشتعال کا اظہار مختلف طریقوں سے کررہا تھا۔ سنٹرل ہسپتال تک جلوس پہنچ گیا تھا کہ اس دوران میں والیِ سوات کا ایک اعلیٰ نمائندہ آپہنچا اور بپھرے ہوئے عوام کو والی سوات کا پیغام سنایا۔ پیغام یہ تھا: ”اگر آپ چاہتے ہیں کہ مَیں آپ لوگوں کے درمیان رہوں، تو براہِ کرم اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ اور اپنے اپنے کاموں میں لگ جاؤ۔ اگر آپ لوگ میرا یہ کہنا نہ مانیں گے، تو پھر حکومتِ پاکستان، نوابِ دیر کی طرح مجھے بھی ہوائی جہاز میں بٹھا کر دور کہیں جیل میں نظر بند کردے گی۔ اور مَیں نہیں چاہتا کہ مَیں آپ سے دور رہوں، اور اس طرح سوات کے عوام نے اپنے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر والیِ سوات کا حکم مان لیا۔
دوسری جانب والیِ سوات نے سوات کا چارج دیتے ہوئے اپنے محل سے ”یا ہادی“ کا جھنڈا اُتار دیا اور خود اپنے ہاتھوں سے ایک محب وطن پاکستانی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا، اور اس کو سلامی دی۔ ایک صابر و شاکر انسان کی طرح سوات میں رہنے لگا۔ اس عرصے میں کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی اور عملی سیاست میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ 14 ستمبر 1987ء کی صبح پھر کاروباری ادارے بند ہوگئے۔ تمام تعلیمی ادارے اپنے آپ بند ہوگئے۔ لوگ والیِ سوات کے محل کی طرف جانے لگے۔ لاؤڈ سپیکر پر اعلانات نشر ہورہے تھے۔ سوات کی فضا ہوائی جہازوں کی گڑ گڑاہٹ سے وقتاً فوقتاً لرزتی رہی۔ سب لوگ پریشان اور غمگین تھے۔ گراسی گراؤنڈ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ کیوں کہ آج سوات کا محسن میاں گل عبدالحق جہانزیب 79 سال کی عمر میں صبح کے وقت حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے رحلت کرگئے تھے۔ اس غم میں صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم، صوبائی وزیراعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا اور اعلیٰ حکام بہ نفس نفیس سوات کے عوام کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ سابق والئی سوات کی آخری رسوم میں سب شامل ہوگئے تھے۔ اللہ بخشے مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔
سابق والئی سوات میجر جنرل میاں گل عبدالحق جہاں زیب کی وفات کے ساتھ سوات کا ایک تاریخی باب بند ہوا۔