ملک گوہر اقبال خان رما خیل
امریکی اور برطانوی اعلیٰ افسران کے ایک اجتماع میں یہ سوال پوچھا گیا کہ نظریہئ پاکستان کا بانی کون ہے؟ اجتماع میں موجود مسلمانوں کے ایک لیڈر نے جواب دیا، ”مسلمان!“ وہ پوچھنے لگے، ”کیسے؟“ انہوں نے فرمایا کہ جوں ہی کوئی ہندوستانی اسلام قبول کرلیتا ہے، ہندو اس کے درپے آزار ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور شادی بیاہ ہر قسم کے مجلسی تعلقات منقطع کر لیتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس پر فرض ہوجاتا ہے کہ کفار سے لاتعلق ہو جائے۔ اس لیے جس دن ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا، پاکستان اسی دن بن گیا تھا۔“
عزیزانِ من، اس اعلیٰ افسران کے اجتماع میں ایسا دندان شکن جواب دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ مسلم لیگ کے روحِ رواں بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ نظریہئ پاکستان، پاکستان کے جسم کی روح ہے اور اس کی اہمیت اور اِفادیت پاکستان کی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ اس لیے نظریہئ پاکستان ہر پاکستانی کے قول وعمل میں تن درست و توانا رہنا چاہیے۔ کیوں کہ اسی کی بدولت ہمیں آزادی ملی ہے۔ صحت کمزور سے کمزور سہی بہرحال بیماری کے ہم سطح تو نہیں ہوسکتی۔ روشنی دھیمی سے دھیمی سہی بہرحال تاریکی سے تو بہرحال غنیمت ہوتی ہے۔ اسی طرح آزادی کو غلامی کے برابر رکھ کر دیکھیے، تب ہی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آزادی واقعی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے بڑوں نے اس ملک کی آزادی کی کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ قیامِ پاکستان کا انتقام لینے کے لیے ہندؤوں اور سکھوں نے مشرقی پنجاب، دہلی اور سکھ ریاستوں میں 1947ء میں کس طرح 15 لاکھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا تھا۔ ایک لاکھ مسلمان عورتوں کو اغوا کر کے ذلیل ورسوا کیا تھا۔ 80 لاکھ مسلمانوں کو اربوں روپے کی جائیداد اور مال سے محروم کردیا گیا تھا۔ 1948ء میں وقتاً فوقتاً پنجاب سول سیکرٹریٹ نے جو رپورٹیں شائع کیں، ان کی رو سے نوخیز دوشیزاؤں کا اغوا، عورتوں کی شرمناک حالت میں عصمت دری، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرنا، نوزائیدہ بچوں کو ماں کی پیٹ سے گھسیٹ کر نکالنا، ان کو سر زمین یا دیوار پر مار مار کر ان کا بھیجا نکالنا، معصوم بچوں کو ان کے والدین کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کرنا، عورتوں اور بچوں کی ٹانگیں پکڑ کر ان کو چیرنا، ان کی املاک لوٹنا اور جائیدادیں جلانا اور مہاجرین کے قافلوں اور ٹرینوں کو لوٹ کر مسافروں کو موت کے گھاٹ اتارنا اس دور کا معمول بن گیا تھا۔
لندن ٹائمز کے نامہ نگار”لوئیس ہیرن“ جو 1948ء سے 1955ء تک دہلی میں مقیم رہے، کہتے ہیں کہ پنجاب اس وقت قتلِ عام کا مرکز تھا۔ مَیں نے خود امرتسر کے قریب 4 ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام دیکھا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تقسیمِ ہند کے وقت 10 لاکھ افراد قتل کیے گئے، جن کی لاشیں گڑھوں، نالوں نالیوں، کنوؤں اور دریاؤں میں زیرِ زمین پوشیدہ ہوچکی ہیں، یا کتوں اور گِدھوں کی خوراک بن چکی ہیں۔ جس وقت چار ہزار مسلمانوں کے قتل کی خبر ایک ویران گھر کے کاؤنٹر پر کھڑے ہو کر لکھ رہا تھا، تو میری آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔ بعد ازاں رات کو دہلی میں ”ماؤنٹ بیٹن“ اور ان کی اہلیہ نے مجھے ڈنر پر بلایا اور کہا کہ مسلمان ”غریب ہندؤوں“ کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ تو مَیں نے انہیں امرتسر کے ایک ٹرین کا واقعہ سنایا اور بتایا کہ 4 ہزار مسلمان میری آنکھوں کے سامنے ”غریب ہندوؤں“ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان کی عورتوں اور بچوں تک کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ عورتوں کی چھاتیاں کاٹ ڈالی گئیں اور مردوں کے ہاتھ پاؤں اور سر تن سے جدا کر دیے گئے۔
عزیزانِ من، لاکھوں مسلمانوں نے عزت اور جان و مال کی قربانی دے کر اس ملک کو حاصل کیا۔ اس ملک کی خاطر اس قوم نے 48، 65 اور 71 وغیرہ کی جنگیں لڑیں اور آج تک قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔
اس ملک کی خاطر اس قوم نے کئی مارشل لا اور آمریتیں برداشت کیں۔ اس ملک کی خاطر سیاست دانوں نے سینوں پر گولیاں کھائیں، پھانسی کے پھندوں پر لٹکے، جلا وطن ہوئے اور آج تک جیل و قید کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جمہوریت کی گاڑی بھی کئی مرتبہ پٹری سے اتاری گئی، لیکن کسی نے نظریہئ پاکستان سے بغاوت نہیں کی۔ آج بڑی قربانیوں کے بعد جب یہ ملک ایٹمی طاقت بن گیا اور اس کا دفاع ناقابل تسخیر بن گیا۔ آج جب ہزاروں سویلین اور فوجی جوانوں کی قربانیاں رنگ لے آئیں، ملکی سرحد پر باڑ لگ گئی اور ملک کی جغرافیائی حدود متعین ہوگئیں۔ آج جب لمبی دورانیہ والی آمریتوں کا آنا ختم ہوا اور اس ملک میں تسلسل کے ساتھ جمہوریت تیسری دور میں داخل ہوئی۔ الغرض، آج جب پاکستان ہر لحاظ سے مضبوط بن رہا ہے، تو دشمن سازشیں کر کے اس ملک کی رگِ جان کاٹ رہا ہے، یعنی ”نظریہئ پاکستان“ کو پامال کرکے اس ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے، اور اس کے لیے آلہئ کار اس قوم کو بنایا جارہا ہے، جس نے آزادی کے بعد اس ملک کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ جی ہاں، ”پختون قوم“ جس کی قربانیوں کی بدولت آج اس ملک کی جغرافیائی حدود محفوظ ہوئی ہیں اور اس کا انجام عراق و افغانستان جیسا نہیں ہوا۔ لیکن افسوس صد افسوس اس مرتبہ ناخواندہ پختونوں کا خون ملک کے خلاف بہانے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں۔ جس کے لیے پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ) کے نام سے تحریک چلائی جا رہی ہے، جو حقیقت میں پشتون تباہی موومنٹ ہے۔
عزیزانِ من، ہم کیسے اس کو پشتون تحفظ تحریک مانیں جس کی حمایت امریکی کٹھ پُتلی ”اشرف غنی“ کرتا ہے، جس کے ہاتھ افغانستان کے پختونوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان کے پختونوں کے تحفظ کی بات کرتاہے۔ ہم اس کو پشتون تحفظ تحریک کیسے کہیں، کہ ان کی ایک پکار پر پورا مغربی میڈیا لبیک کہے اور ان کو بھرپور کوریج دے، لیکن وہی میڈیا لکیر کے اس پار آباد پختونوں کی آہ و بکا اور فریاد تک سننا گوارا نہیں کرتا۔ وہ تحریک جس کے دو مشران قومی اسمبلی کے ممبران ہوں اور جن کو دوسری سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہو، اور وہ اپنے مسائل اسمبلی کے فلور پر اٹھانے کی بجائے ”یو این“ جانے کی دھمکی دیتے ہوں، تو ہم کیسے ان کا یقین کریں! اگر پی ٹی ایم واقعی پختونوں کا تحفظ چاہتی ہے، تو انہیں اپنی زبان کو لگام دینا ہوگا۔ انہیں ”یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے“ کا نعرہ چھوڑنا ہوگا۔ ”یہ ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ نہیں ہے۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ آپ کو اپنی صفوں سے ان لوگوں کو نکالنا ہوگا جو آپ کے جلسے میں ”اسرائیل زندہ باد“ کے نعرے لگاتے ہیں۔ آپ کو ”لراوبریو افغان“ کا نعرہ بھی بھولنا ہوگا، جو نظریہئ پاکستان سے بغاوت، ریاست سے غداری اور ان 15 لاکھ مسلمانوں جنہوں نے آزادی کے لیے قربانی دی، ان 60 ہزار سویلین اور ہزاروں فوجی جوانوں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے، کے ساتھ خیانت ہے۔ آپ کیوں ”لر او بر“ کا نعرہ لگا کر ناخواندہ پختونوں کو دھوکا دیتے ہیں؟ افغان قومیت پاکستانی پختونوں کے لیے تاریخ کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پاکستان ہم سب کا حال اور مستقبل ہے۔ آپ کیوں پختونوں کو احمق بنا کر ماضی میں الجھا رہے ہیں؟ آپ کے جو برحق مطالبات ہیں، یعنی لاپتا افراد کی بازیابی، چیک پوسٹس اور مائنز کو ختم کرنا اور ماورائے عدالت قتل کو روکنا، وہ لائق تحسین ہیں، ان کے لیے جدوجہد کرنا آپ کا آئینی حق ہے، لیکن اس کے پیچھے آپ نے جو اس ملک کے ایک منظم ادارے کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے، یہ آپ کی نری بیوقوفی ہے۔ آپ شاید بھول گئے ہیں کہ اس ادارے کے سامنے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو بھی نہیں ٹک پائے جسے پورے ملک میں مینڈیٹ حاصل تھا، اور جسے ایران، عراق، سعودی عرب اور لیبیا جیسے بے شمار اسلامی ممالک کی حمایت بھی حاصل تھی۔
عزیزانِ من، ایسا نہ ہو کہ پی ٹی ایم کے چند سرکردہ عناصر کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ہزاروں بے گناہ پختونوں کا خون بہے اور وہ بھی اس بار دہشت گردی کی بجائے غداری کے نام پر۔ آپ چند دن پہلے کے ”خڑ کمر“ واقعے پر غور کریں جس میں پی ٹی ایم کے دو مشران گرفتار ہوئے اور 45 افراد زخمی ہوئے، فوجی جوانوں کے علاوہ 13 اموات بھی ہوئیں۔ اللہ نہ کرے کہ آئندہ اس نوعیت کے واقعات ہوں۔ پی ٹی ایم کے قائدین کو چاہیے کہ اپنے برحق مطالبات کے علاوہ ان ناخواندہ پختونوں کو نظریہئ پاکستان سے بغاوت پر نہ ابھاریں۔ ڈی جی آئی ایس آئی آر کے بقول، آرمی چیف اس معاملے میں پہلے دن سے صبر اور محب کے ساتھ پیش آنے کا حکم دے رہا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ رب کریم آرمی چیف کو مزید استقامت کی توفیق دے اور اس کے ساتھ اس ملک کے صاحبانِ امر سے یہ گذارش کرتے ہیں کہ ازراہِ کرم اس مسئلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کیا جائے، تاکہ مزید مسائل کھڑے نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظریہ پاکستان اور پی ٹی ایم
