ساجد ابوتلتان
اسلامی ثقافت کے بنیادی مرکز مسجد میں ابتدا ہی سے عبادت، تلاوت، درس و تدریس، عدل و انصاف، سعی و جہاد، علم و ادب اور معاشرتی تربیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ پیش امام، فنِ خطابت، انشا، ممبر، مکتب، مقتدی، طالب، چبوترہ (کمرہ) وغیرہ مسجد سے وابستہ ضروری لوازمات ہیں۔ طلبہ کا پہلا چبوترہ مسجدِ نبویؐ کا ”صفہ“ ہی ہے، جہاں دور درواز سے آئے ہوئے صحابہ کرامؓ تحصیلِ علم کی خاطر مقیم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے سے علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز مسافتوں کا طے کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اس لیے ”سفر وسیلہئ ظفر“ کہاوت مشہور ہوئی۔ اندلس، بغداد، مصر، شام اور نیشاپور وغیرہ کو چھوڑ کر تحصیلِ علم کے لیے وقت اور مقام کا تعین نہ تھا۔ ایک ایک کتاب کے لیے دور دراز کا سفر طے کیا جاتا تھا۔ گویا علم حاصل کرنے کے لیے زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا جاتا تھا۔
جب پشتونوں نے اسلام قبول کیا، تو حصولِ علم کا یہی رواج چلتا تھا۔ ان میں مختلف مکتبِ فکر کے علما پیدا ہوئے، جو دین سے زیادہ مسالک کے ترجمان تھے، تاہم طلبہ اُن سے دینی علوم کی مختلف کتابیں پڑھنے آتے تھے۔ یہ طلبہ مسجد میں رہتے تھے۔ بلاشبہ مساجد اور خانقاہوں نے عظیم شخصیات پیدا کی ہیں۔ جیسے سوات کے اخوند، سیدو کی مسجد میں مقیم تھے۔ جن سے بے شمار طلبہ نے شریعت و طریقت کے فیض پائے۔ اس کے علاوہ عام مساجد بھی درس کے لیے مختص تھے۔ جیسے برخوردارم اختر حسین ”سیرئی استاد“ کے متعلق لکھتے ہیں کہ انہوں نے توتکے، سمبٹ، بیدرہ اور خوازہ خیلہ کی مساجد میں علم حاصل کی۔ (گلدستہ)
عبدالحق کہتے ہیں عربی گرائمر ”تحریرِ سمبٹ“ کے خالق افغانستان سے شانگلہ اور پھر سمبٹ آئے تھے۔ (گلدستہ)
الغرض، سوات کی ہر مسجد میں طلبہ رہتے تھے۔ ان کی خوراک کا بندوبست کہاں سے ہوتا تھا؟ اس بارے باچا صاحب اپنی کتاب ریاستِ سوات میں کہتے ہیں: ”ہر صبح و شام ایک طالب علم ٹوکری اور برتن لے کر محلے یا گاؤں میں پھرتا تھا۔ ہر گھر کے دروازے پر جاکر آواز دیتا: ”وظیفہ راوڑیئ خدائے مو اوبخہ“ اسی طرح گاؤں کے تمام گھروں سے یہ طالب علمان خراج وصول کرکے روٹی کی بھری ہوئی ٹوکری اور سالن سے بھرا ہوا برتن مسجد لے آتے ہیں، اور سب مل کر کھاجاتے ہیں۔ طلبہ کے مابین اس قسم کی درویزہ گری نمبروار ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ گدائی کا یہ عجیب و غریب طریقہ اخوند درویزہ نے ایجاد کیا ہے۔“
مسجد کے یہ طلبہ اکثر غیر مقامی تھے۔ باالخصوص وزیرستان اور افغانستان کے طلبہ یہاں آتے تھے۔ ثبوتِ بدیہی اُن کا لب و لہجہ، بود و باش حتیٰ کہ ثقافت مختلف تھی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر انعام الرحیم اور ایلن ویارو کی کتاب ”سوات سماجی جغرافیہ، قبائیلیت اور جدیدیت کے درمیان“ میں مترجم فضل معبود لکھتے ہیں کہ طالبان مسجد کے اندر تفریح کی ایک اور سرگرمی کرتے تھے۔ عشا کی نمازکے بعد طالبان مسجد کے اندر اتنڑ کرتے تھے اور گاؤں کے جوان اُن کا تماشا کرتے تھے۔ یہ عمل اَب سخت گیر مذہبی لوگوں کے اثر سے متروک ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے یوسف زئی ناچ پسند نہیں کرتے۔ اس لیے یہ طلبہ باہر کے لوگ تھے۔
کہتے ہیں کہ ایک طالب جب گھر سے واپس آیا، تو مسجد کے دروازے میں ناچنے لگا۔ طلبہ کا سبب دریافت کرنے پر وہ بولا، آپ یہ نہ سوچنا کہ مسجد کی روٹیاں کھانے سے مستی آتی ہے، مَیں گھر سے مست ہوکے آیا ہوں۔ جمعہ، چہلم اور خیرات کے کھانوں سے اُن کی ضیافت ہوتی۔ بعض جگہ اُن کے رہنے کے انتظامات بھی کیے جاتے۔ میجر راورٹی کے ایلچی کہتے ہیں: (ترجمہ) ”ہم لنڈی سے بالا درشخیلہ روانہ ہوئے یہاں سے ایک نہر گزرتی ہے، جس کے دونوں کناروں اونچے اور خوبصورت درخت کھڑے ہیں۔ اُن گھنے اور خوبصورت درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں اُن طلبہ کے لیے جو دوسرے علاقوں سے یہاں سیکھنے آتے ہیں، مسجد اور حجرے موجود ہیں۔“ (سوات 858)
غرض یہ کہ سوات کی دلکش وادی کو آنے والے طلبہ یہاں آکر بہت خوش ہو کر یہاں رہائش اختیار کرتے۔ مینگورہ کی بنجاریانو مسجد میں رہائش پذیر اتمانزو (ہشت نگر) کے احمد دین طالب اس کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
زہ احمد دین طالب پہ سوات کی زکہ خوخ یم
چی موندلے می وطن د خاپیرو دے
تحصیل علم کے بعد طالب منبر و محراب کی تلاش میں سرگرداں رہتا۔ بقولِ مہک موہن، ”محراب کے لیے اکثر جھگڑے ہوتے تھے۔ کیوں کہ مساجد کم تھیں اور طلبہ کی بہتات تھی۔“ شاید تعویذ گنڈے کرنا ان طلبہ کی معاشی مجبوری بن گئی تھی۔ وجہ کچھ بھی ہو ان کے تعویزوں نے پشتون ثقافت میں حصہ ضرور ڈالا جیسے
د جومات تورہ طالبہ
زما نیازبین جانان لہ وکڑہ تعویذونہ
یا یہ کہ
تورہ طالبہ! ناجوڑہ یمہ
زما مشکی اوربل لہ وکڑہ تعویذونہ
اس کے علاوہ طالب جو کسی کا بیٹا تھا، تو کسی کا بھائی یا وہ کسی کا لالے بھی ہوتا، جبھی کہتے ہیں:
زما جانان دی ڈیر ایسار کڑو
پہ سترگو ڑوند شی د جومات ملا مسکینہ
قارئین! طالب مساجد کا حسن ہی نہ تھا، بلکہ یہ ہماری ثقافت کا جیتا جاگتا نمونا بھی تھا۔ اکثر بڑے بڑے افسران کے ساتھ مسجد میں رہتے ہوئے جدید تعلیم حاصل کرنے سکول جاتے تھے۔ اباسین کوہستان اور سوات کوہستان کے اکثر آتے تھے، ہمارے چند کلاس فیلوز یہاں مساجد میں مقیم تھے۔ 2000ء تک تقریباً یہی سلسلہ چلتا تھا۔ اُس کے بعد کیا ہوا، یہ کوئی کہتا نہیں۔ 2009ء میں ایک 13سالہ لڑکے سے پوچھا، کیا کام کرتے ہو؟ بولا، طالب ہوں! پوچھا، کون سے مدرسے کے۔ اس نے فوراً چادر سے بندوق نکالی۔ ہوا میں لہرائی اور سلطان راہی کے سٹائل میں بولا، ”اس مدرسے میں!“ تب تو میں جان چکا تھا کہ فرد جسمانی بیماری سے مرتا ہے، لیکن معاشرہ اپنا تشخص ختم ہونے سے مرجاتا ہے۔ آخر میں طالب سے متعلق چند ٹپے ملاحظہ ہوں:
د جومات گوٹ درباندی مات شہ
چی درنہ پاتی شی تاودہ ساڑہ ٹوکونہ
د جومات گوٹ ماتہ محل دے
طالب اشنا می پہ کی عمر تیروینہ
طالب د مینی لیونے شو
د جومات گوٹ کے پہ ٹپو ولگیدونہ