نذیر احمد بشیری
تحریکِ انصاف کی پارٹی تعلیم، صحت اور انصاف کا نعرہ لے کر بائیس سال بعد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئی ہے۔ اس پا رٹی کے منشور کا سب سے بڑا ایجنڈا تعلیم اور خصوصاً خواتین کی تعلیم ہے، لیکن ضلع سوات میں کالجز کے فقدان سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ تحریک انصاف کا ریکارڈ تعلیم کے معاملے میں دوسری پارٹیوں کی طرح کچھ اچھا نہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ گذشتہ پانچ سالہ دور میں تعلیم کے لیے کثیر رقم مختص کرنے کے باوجود ضلع سوات میں صرف ایک ’’بوائز ڈگری کالج خوازہ خیلہ‘‘ قائم کیا گیا۔ جب کہ ایم ایم اے اور اے این پی نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں قلیل بجٹ کے باوجود دو دو کالج قائم کیے تھے۔ اے این پی دور میں تو کیڈٹ کالج سوات اور سوات یونی ورسٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
ضلع صوابی میں سولہ لاکھ آبادی کے لیے سولہ ڈگری کالجز ہیں، لیکن سوات کی تیئس لاکھ آبادی کے لیے صرف گیارہ کالجز ہیں۔ ان میں سے بھی دو کرایہ کی بلڈنگ میں ہیں۔ اس سے بڑی شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ پانچ سا ل گزر گئے، لیکن سوات یونی ورسٹی کی عمارت قائم نہ کی جاسکی۔ اس کی وجہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ کیوں؟ یہاں کا کوئی وزیر مشیر یا ممبر اسمبلی کی اس میں دلچسپی نہیں ہے، ہمارے خیال میں تو وجہ صرف یہی ہے۔
صوبے کی پہلی خواتین یونی ورسٹی ایم ایم اے کے دورِ حکومت میں پشاور میں قائم ہوئی، جس کے بعد تحریکِ انصاف کے دور میں مردان ڈویژن میں (ضلع مردان اور ضلع صوابی) دو خواتین یو نی ورسٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا، جب کہ سات اضلاع والے ملاکنڈ ڈویژن کو اس سے یکسر محروم رکھا گیا۔
سوات سے تحر یک انصاف کی ممبر صوبائی اسمبلی محترمہ نادیہ شیر اس ناانصافی پر خاموش رہیں (ویسے بھی محترمہ نے اپنے پانچ سالہ دور میں سوات کی خواتین کے لیے کام تو دور کی بات ایک بات کرنا بھی گوارہ نہ کیا)۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے اس وقت کی ممبر قومی اسمبلی محترمہ عائشہ سید نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی کے فلور پر اُٹھا یا اور ایک قرارداد بھی پیش کیا کہ سوات میں خواتین یونی ورسٹی قائم کی جائے۔ بعد ازاں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے گراسی گراؤنڈ میں جلسے کے دوران میں ’’سوات یونی ورسٹی‘‘ میں خواتین کے لیے الگ کیمپس کا اعلان کیا، جس کے لیے مرکزی بجٹ میں نوے کروڑ روپے مختص کرکے جاری کیے گئے۔ اس کیمپس کے لیے زمین کی خریداری صوبائی حکومت کی ذمہ تھی، لیکن صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی اور مستقل وائس چانسلر کی عدم موجودگی کی وجہ سے زمین کی خریداری کا مسئلہ کھٹائی میں پڑگیا۔ سابق قائم مقام وائس چانسلر جناب محبو ب الرحمان نے اپنے مختصر ترین دور میں اس کیمپس کا آغاز گرلز کالج سیدو شریف کی عارضی عمارت میں چار شعبہ جات کے قیام سے کیا۔ بعد ازاں خواتین کیمپس کی خاطر زمین کی خریداری کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی، جس نے تین جگہوں کی نشان دہی کی، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس پر مزید پیش رفت نہ ہوسکی۔
قارئین، عاطف خان کی کوششوں سے مردان جب کہ اسد قیصر کی دوڑ دھوپ سے ضلع مردان اور ضلع صوابی میں خواتین یونی ورسٹیز علاقے کی خواتین کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں، لیکن سوات میں خواتین کیمپس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پچھلے دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ سوات ’’پاٹا‘‘ ہے۔ اختیارات صوبے کے پاس نہیں ہیں۔ اب تو سوات پاٹا بھی نہ رہا یہ بہانا بھی نہ رہا، بلکہ اب یہ مردان اور صوابی جیسا ضلع بن گیا ہے۔ مرکز میں بھی کسی اور پارٹی کی حکومت نہیں۔ گورنر شاہ فرمان بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبے کے وزیراعلیٰ تحریک انصاف سے ہیں اور سونے پر سہاگا یہ کہ ان کا تعلق بھی ضلع سوات ہی سے ہے۔ دو صوبائی وزیر اور ایک وزیرِمملکت کا تعلق بھی اسی بدقسمت سوات سے ہے، نادیہ شیر دوسری مرتبہ خواتین کی مخصوص نشست پر اسمبلی کی ممبر بن گئی ہیں ۔ اس لیے یہاں کے عوام موجودہ وزیراعلیٰ سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اولین فرصت میں خواتین کیمپس کو مکمل خواتین یونی ورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کریں گے اور ساتھ ساتھ خواتین یونی ورسٹی کے لیے زمین کی خریداری کا مسئلہ بھی ہنگامی بنیادوں پر حل کرانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
اپنے اپنے اضلاع میں ترقیاتی کام کرکے اکرم خا ن درانی بنوں سے، امیرحیدر ہوتی مردان سے جب کہ پرویز خٹک نوشہرہ سے کبھی نہیں ہارے۔ ہم محمود خان کے بارے میں بھی یہی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ سوات کو اپنا جائز حق دلوا کر اپنے حلقے سے کبھی نہیں ہاریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین یونی ورسٹی سوات اور خپل وزیر اعلیٰ
